• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دورِ حکومت میں جب توانائی بحران کے خاتمے کے لئے نت نئے پاور پلانٹ لگ رہے تھے تو شیخ رشید کہا کرتے تھے، بجلی کے نرخ اس قدر بڑھ جائیں گے کہ لوگ لوڈشیڈنگ کی دعائیں کریں گے۔ مجھے تعجب ہوتا اور سوچتا کہ بجلی مہنگی بھی ہو جائے تو بھلا یہ دعا کیسے کی جا سکتی ہے کہ پھر سے لوڈشیڈنگ شروع ہوجائے؟ شیخ صاحب شریک جرم ہونے کے باوجود اس لئے بار بار خبردار کر رہے تھے کہ انہیں معلوم تھا کیا ہونے جا رہا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ نئے پاکستان میں موت برداشت کرنا اتنا مشکل نہیں ہو گا جتنا بجلی کے بل کو جھیلنا دشوار ہوگا۔ 2018میں اگر کوئی گھریلو صارف 300سے زائد یونٹ خرچ کرتا تھا تو 300سے زائد ہر یونٹ پر 14روپے کی ادائیگی کرنا ہوتی تھی لیکن جون 2019میں یہ نرخ بڑھ کر 17.60روپے فی یونٹ ہو چکے ہیں۔ چند روز قبل ای سی سی نے بجلی کی قیمت 1.5روپے فی یونٹ مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔ اس اضافے کے نتیجے میں صارفین سے 556ارب روپے اضافی وصول کئے جائیں گے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیئے گئے 6ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی تفصیل سے متعلق 96صفحات پر مشتمل جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک بجلی کی قیمت میں اتنا اضافہ نہیں کیا جتنا کیا جانا تھا۔ آئی ایم ایف سے طے کی گئی شرائط کے مطابق اگلے مہینے ہماری حکومت بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کر کے عوام کو ایک اور کڑوی گولی کھلانے پر مجبور ہوگی۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض لائن لاسز ہی نہیں سرکاری ملازمین کی ملی بھگت سے چوری ہونے والی بجلی کا تاوان بھی اب اُن صارفین سے وصول کیا جائے گا جو بل ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر غلام سرور نے چند ماہ قبل گوہر افشانی کرتے ہوئے گیزر کو تعیشات میں شمار کرنے کا جو فرمانِ عالیشان جاری کیا تھا اُسے مدِنظر رکھتے ہوئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ نئے پاکستان میں بہت جلد ایئر کولر، پنکھے، فریج اور استری جیسی اشیاء بھی سامانِ تعیش میں شمار ہوا کریں گی جبکہ ایئر کنڈیشنر جیسی آسائشات ’’سپر لگژری‘‘ آئٹم ہو جانے کی صورت میں متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو جائیں گی اور محض ارب پتی ہی اے سی میں سونے کی ہمت کر پائیں گے۔

آئی ایم ایف کی اس ’’شر انگیزانہ‘‘ رپورٹ میں اور بھی کئی ایسے انکشافات ہیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ یقیناً کسی بدخواہ نے تیار کی ہے۔ مثال کے طور پر وفاقی وزیر مملکت حماد اظہر جو ترقی پانے کے بعد وفاقی وزیر ہو چکے ہیں، اُن سے ایک ہی دن بعد ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لینے کی بات بعد میں کریں گے پہلے ان کی پُرجوش تقریروں کا ذکر ہو جائے جن کے بعد انہیں پروموشن دینے کا فیصلہ ہوا۔ بتایا جاتا رہا کہ یہ بجٹ پاکستان کے معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے جبکہ اپوزیشن یہ الزام لگاتی رہی کہ یہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر تیارکیا گیا بجٹ ہے۔ مجھے اپنے حکمرانوں کی بات پر بھروسہ تھا اس لئے میں نے اپوزیشن کے دعوئوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا۔ اس دوران ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی رانا ثناء اللہ کے شہر فیصل آباد پہنچے اور چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے پورے وثوق کیساتھ یہ دعویٰ کیا کہ حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ اُنہوں نے چیلنج کیا کہ کوئی شخص بتا دے کہ کونسا نیا ٹیکس لگا ہے؟ مجھے امید ہے کہ اس چیلنج کے بعد وہاں موجود حاضرین بغلیں جھانکتے ہوئے پائے گئے ہوں گے کیونکہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کوئی بھی اُن کے اس دعوے کو جھٹلا نہیں سکا۔ اِس دندان شکن جواب کے بعد میرے رہے سہے شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے اور میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ حالیہ بجٹ عوام دوست اور غریب پرور ہے جس میں آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کو چپل کی نوک پر رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت تو نہیں کہ کسی غیر ملکی مالیاتی ادارے سے ڈکٹیشن لیتی پھرے۔ لیکن اب آئی ایم ایف نے شرپسندانہ عزائم کے تحت جو رپورٹ شائع کی ہے وہ خاصی گمراہ کن ہے۔ آئی ایم ایف حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے بجٹ ہماری مشاورت سے تیار کر کے پارلیمنٹ سے منظور کروایا ہے۔ اس کیساتھ ہی یہ ناقابلِ یقین انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں محاصلات بڑھانے کی غرض سے 733ارب 50کروڑ روپے کے نئے ٹیکس لگائے ہیں جبکہ پارلیمنٹ سے یہ تفصیلات چھپاتے ہوئے بتایا گیا کہ 516ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پیکیج مکمل ہونے تک پاکستان کوئی نئی ایمنسٹی اسکیم نہیں لاسکے گا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 27نکات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ دسمبر 2019میں اسٹیٹ بینک اور بجلی کی قیمت کا تعین کرنے والے ادارے نیپرا کی خودمختاری کا بل پارلیمنٹ میں لایا جائے گا تاکہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسیوں اور نیپرا کی طرف سے بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے فیصلوں پر حکومت اثر انداز نہ ہوسکے۔ اس رپورٹ میں اس کے علاوہ بھی کئی شرائط کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی ورق گردانی کرنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ 39مہینے یعنی یکم جولائی 2019سے ستمبر2022 تک نئے پاکستان میں آئی ایم ایف کا راج ہوگا۔ 6ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج میں سے ایک ارب ڈالر کی رقم فوری طور پر ادا کر دی گئی ہے جبکہ دیگر اقساط مرحلہ وار شرائط پوری ہونے پر ہی جاری کی جا سکیں گی۔

مجھے یقین ہے کہ آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے اور اس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے نیک اور صالح حکمراں کسی صورت ملکی خودمختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی نہیں رکھ سکتے لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ڈکٹیشن نہ لینے والے وزیراعظم کو ایک دن بعد وفاقی وزیر حماد اظہر سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان کس کے دبائو پر واپس لینا پڑا؟

تازہ ترین