• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں میرا کینیڈا جانا ہوا۔ امریکہ اور کینیڈا نارتھ امریکہ کا حصہ ہیں، اُن دونوں ملکوں میں رہنے والے سندھ کے باسیوں نے عرصہ دراز سے ’’سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ‘‘ (سانا) قائم کی ہوئی ہے، سانا ہر سال کبھی امریکہ تو کبھی کبھار کینیڈا کے کسی شہر میں اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرتی ہے جس میں ان ممالک میں رہنے والے سانا کے ممبران، سندھ سے ممتاز دانشوروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اہم افراد کو مدعو کیا جاتا ہے، ان اجلاسوں میں سانا اپنی سالانہ کارکردگی سے مندوبین کو آگاہ کرتی ہے اور ان کو خطاب کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے دارالحکومت ٹورنٹو میں اس سال منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی امریکہ اور کینیڈا میں بسنے والے سندھ کے باسیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہ اجلاس 29جون، 30جون اور یکم جولائی کو(تین دن) منعقد ہوئے، روزانہ ہر اجلاس کے آخر میں موسیقی کا پروگرام ہوتا تھا، ان تین دنوں میں مختلف موضوعات پر سیمینار منعقد ہوئے جن میں مقررین نے حقائق کے ساتھ اپنی آرا پیش کیں۔ ایک اجلاس کا موضوع ’’ہیومن رائٹس کی صورتحال‘‘ تھا جبکہ ایک سیمینار دریائے سندھ کے بارے میں ہوا جس میں مقررین نے دلائل اور حقائق کے ساتھ ساری صورتحال اجلاس کے شرکاء کے سامنے رکھی کہ کس طرح ایک طرف سندھ کو دریائے سندھ سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف سندھ کے کئی اہم علاقوں کے سمندر برد ہونے کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

30جون کو سانا کی طرف سے کانفرنس کے مندوبین کو جن میں مردوں کے علاوہ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی کو بسوں اور دیگر گاڑیوں کے ذریعے ایک لمبے سفر کے بعد دنیا کے ایک مشہور مقام ’’نیاگرا فال‘‘ کی سیر کرانے کے لئے لے جایا گیا، ان مندوبین کے لئے یہ سیر ان کی زندگی کا ایک یادگار دن تھا، یہ مقام کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ہے جسے دیکھنے کے لئے پورے سال دنیا کے مختلف ممالک کے سیاح بڑے پیمانے پر دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کانفرنس کا سب سے اہم اجلاس وہ تھا جس میں سانا کے رہنمائوں نے بڑی اسکرین پر ڈاکیو مینٹریز کے ذریعے سندھ کے ایسے کئی گائوں میں سانا کی مالی مدد سے کی گئی ترقی کی تفصیلات پیش کیں۔ ان گائوں میں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں اور اسپتالوں کی توسیع اور جدید بنانے کی کوشش کی گئی ہے، ان پروجیکٹس کے ذریعے ان گائوں کے رہائشیوں کے انٹرویو بھی پیش کئے گئے۔ سانا کے رہنمائوں نے اعلان کیا کہ سندھ کے جو مخیر حضرات اپنے گائوں میں ایسے کام کرانے کا اعلان کریں گے ان کی سانا بھی بھرپور مالی امداد کرے گی۔ میرے خیال میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ جو دنیا کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں ان میں سے سانا ایسی واحد تنظیم ہے جو اپنے اپنے علاقوں میں اس طرح کا ترقی کا کام کر رہی ہے یا کرا رہی ہے۔ میں نے اپنے اس کالم میں سانا کی طرف سے منعقد کی گئی کانفرنس کا مختصر احوال تو رقم کردیا ہے اس کا تفصیلی احوال میں کسی اور کالم میں پیش کروں گا۔ یہ مجھے اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ میں نے کینیڈا میں جو کچھ دیکھا اگر اس کا ذکر اس کالم میں نہ کیا تو یہ بڑی زیادتی ہوگی، کینیڈا کی کس کس بات کی تعریف کی جائے؟

میں نے کینیڈا کا دارالحکومت ٹورنٹو بھی دیکھا، میں تو مشکل سے پانچ چھ دن ٹورنٹو میں رہا مگر میں نے اتنے کم عرصے میں ٹورنٹو میں جو کچھ دیکھا اور سنا وہ مثبت رائے قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔ کینیڈا شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انسانیت کا حقیقی احترام کیا جاتا ہے اور جہاں مذہبی منافرت کا شائبہ تک نہیں، یہاں ریاست حقیقی معنی میں عوام کی خدمت کرتی ہوئی نظر آئی۔ خواتین کو جتنی آزادی کینیڈا میں حاصل ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں، یہاں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ ہر جگہ نظر آئیں گی مگر ہمیں بتایا گیا کہ کینیڈا میں آج تک کسی خاتون کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی کا ایک واقعہ بھی نہیں ہوا، کینیڈا عیسائیوں کا ملک ہے جہاں عیسائی چرچ میں عبادت کرتے ہیں، کئی چرچ پرانے ہو کر گر چکے ہیں، کینیڈا کے کئی بلڈرز نے حکومت سے درخواست کی کہ ان چرچز کی زمین وہ خریدنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں کچھ اور بناکر اپنا کاروبار کرسکیں مگر ریاست نے ہر ایسی درخواست مسترد کردی، اُس کا کہنا تھا کہ یہ زمین عبادت کے لئے ہے، یہاں صرف مذہبی نوعیت کی سرگرمی ہو سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ سال پہلے کچھ مسلمانوں نے کینیڈا کی حکومت کو درخواست دی تھی کہ فلاں جگہ چرچ مسمار ہو چکا ہے اور وہ زمین کسی کے بھی استعمال میں نہیں اگر انہیں اجازت ہو تو یہ زمین خرید کر وہاں مسجد بنالیں۔ کینیڈا کی ریاست نے یہ تجویز قبول کرلی اور کہا کہ عیسائی مذہب میں بھی اللہ کی عبادت کی جاتی ہے جبکہ اسلام میں بھی اللہ کی عبادت کی جاتی ہے لہٰذا انہیں اس جگہ پر مسجد بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس مسجد کے بعد اب تک تین چار اور جگہوں پر چرچ کی جگہ مساجد بن چکی ہیں، ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ جب ان مساجد میں جمعہ کی نمازیں پڑھائی جانے لگیں تو کینیڈا کی حکومت جمعہ کی نماز سے اتنا متاثر ہوئی کہ اس نے احکامات جاری کئے کہ جن علاقوں میں جتنے وقت جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی ان علاقوں میں احترام کے طور پر اس دوران دیگر سرگرمیوں پر پابندی ہوگی۔ کینیڈا میں بچوں کی تعلیم اور صحت کا خرچ ریاست برداشت کرتی ہے۔

تازہ ترین