• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 18جولائی کو دنیا بھر میں جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری سیاہ فام صدر نیلسن مینڈیلا کاعالمی دن منایا جارہا ہے، مینڈیلا کا نام انسانی تاریخ کی ان چند عظیم شخصیات میں شامل ہے جو اس فانی دنیا سے کوچ کرجانے کے باوجود بھی لوگوں کے دِلوں میں زندہ ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر2009 ء میں ایک قرارداد کے ذریعے نئے جنوبی افریقہ کے معمار نیلسن مینڈیلا کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں ان کی سالگرہ کے دن کو سالانہ بنیادوں پر بطور نیلسن مینڈیلا انٹرنیشنل ڈے منانے کا اعلان کیاتھا۔اس سال نیلسن مینڈیلا ڈے مناتے ہوئے مجھے دو سال قبل دورہ جنوبی افریقہ کی خوشگوار یادیں تازہ ہوگئیں جب میں نے وہاں کے باسیوں کے ہمراہ ان کے ہردلعزیز بابائے قوم نیلسن مینڈیلا کی سالگرہ منائی تھی۔ میرا اپنے جنوبی افریقی میزبانوں سے یہی کہنا تھا کہ مینڈیلا انسانی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جس نے نسلی امتیاز کے خلاف ایک پرامن طویل جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے عام معافی اور درگزر کا راستہ اپنایا اوراپنے عظیم کردار سے یہ درس دیا کہ زندگی میںگر کر اٹھنا عظمت کی نشانی ہے، مینڈیلا کہا کرتے تھے کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے معاف کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کو اپنا شراکت کار بنا لیں۔آج جنوبی افریقہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے، تین دہائیاں قبل وہاں رنگ نسل کی بنیاد پر نفرتوں کا راج تھا،جنوبی افریقہ سے برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوچکا تھا لیکن سفید فام باشندے حکومت پر قابض تھے ،بنیادی حقوق سے محروم مقامی سیاہ فام آبادی کی زندگی کا مقصد گوروں کی خدمت بجا لانا تھا، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ سفید فام افراد کے استحصالی اقدامات کو آئینی تحفظ بھی حاصل تھا ، حکومت وقت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب ملک دشمنی اور غداری تھا۔ایسے کربناک حالات میں نیلسن مینڈیلا کی آواز گونجی کہ طاقت کے بل بوتے پر یہ حکومتی اقدامات جنوبی افریقہ کو ترقی کی راہ سے دور کررہے ہیں کیونکہ خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنے والا اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود میں کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے، منڈیلا نے تحریری صورت میں منشورِ آزادی قلمبند کیا جس کے مطابق جنوبی افریقہ ان تمام سیاہ اور سفید فام باشندوں کا ہے جو یہاں بستے ہیں اور کوئی بھی حکومت اقتدارکے حق کا اس وقت تک دعویٰ نہیں کر سکتی جب تک وہ تما م شہریوں کی مرضی سے تشکیل نہ دی گئی ہو۔ نیلسن منڈیلا کے ان جمہوری نظریات کی مقبولیت روکنے کیلئے غاصب حکومت کے ایماء پرغداری جیسے سنگین مقدمات میں انہیں عمر قید سنادی گئی، تاہم انہوں نے کمرہ عدالت میں بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے جمہوریت ، انسانی حقوق اور سماجی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا کہ وہ ایک ایسے مثالی جمہوریت پسند آزاد معاشرے کے قیام کے خواہاں ہیں جہاں تمام لوگ باہمی طور پر امن سے زندگی بسر کریں اور سب کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ نیلسن مینڈیلا سمجھتے تھے کہ سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے تعلیم دنیا کا سب سے مظبوط ہتھیار ہے،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جیل سے بھی جنوبی افریقی عوام سے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی تلقین کی، مینڈیلا خواتین کو بااختیار کرنے اور صنفی مساوات کے بھی حامی تھے، ان کی شخصیت کا یہ مثبت پہلو بھی ہے کہ وہ مغربی سامراج کے خلاف نبزدآزما ہونے کے باوجود سماجی ترقی اور فروغِ تعلیم کیلئے حکومتی اقدامات کو سراہنا انصاف کا تقاضا سمجھتے تھے۔ نیلسن مینڈیلا نے اپنی زندگی کے 27قیمتی سال جیل میں گزار دیئے لیکن نسل پرست حکومت کے سامنے سر نہ جھکایا، جیل سے باہر ان کے قریبی ساتھی اولیور تیمبونے نیلسن منڈیلا کے حق میں منظم مہم جاری رکھی۔ آخرکار مینڈیلاکے ساتھیوں کی انتھک جدوجہد رنگ لے آئی اور حکومت وقت نے نیلسن میڈیلا کورہا کردیا۔ملکی تاریخ کے پہلے قومی انتخابات میں تمام شہریوں کوبلا تفریق رنگ نسل حق رائے دہی استعمال کرنےکا موقع فراہم کیا گیا تو نیلسن مینڈیلا کو جنوبی افریقہ میں بسنے والوں نے اپنا پہلا سیاہ فام جمہوری صدر منتخب کرلیا۔انقلابی رہنماء مینڈیلا اچھی طرح جانتے تھے کہ نئے جنوبی افریقہ میں انکا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے، وہ چاہتے تو سفید فام سامراجی قوتوں سے انتقام لے کر سیاہ فام عوام کے دل وقتی طور پر جیت سکتے تھے لیکن انہوں نے جنوبی افریقہ کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرتے ہوئے انتقامی کاروائیوں سے گریز کرتے ہوئے عام معافی اور درگزر کی پالیسی اپنائی، حکومت سنبھالتے ہی کالوں اور گوروں کے مابین اعتمادسازی ، غربت کے خاتمے اور فروغِ تعلیم کیلئے ٹھوس قدامات کئے،ملک بھر میں میرٹ کو فروغ دیا ،قابل سفید فام شہریوں کو عوامی عہدوں پر برقرار رکھا، سیاسی استحکام کو یقینی بناتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاروں کوراغب کیا، سماجی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کیلئے نئے آئین کے تحت گیارہ زبانوں کو قومی زبان قرار دیا اورعالمی برادری سے برابری کی سطع پر خوشگوار تعلقات استوار کئے۔ مینڈیلا مدتِ صدارت مکمل کرنے کے بعد ازخود اقتدار چھوڑ کر مینڈیلا فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے فلاحی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہوگئے۔ نیلسن مینڈیلا کو دنیا بھر سے عالمی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا جس میں نوبل امن انعام سرفہرست ہے، حکومتِ پاکستان نے بھی اعلیٰ ترین نشانِ پاکستان کا اعزازان کے نام کیا۔عظیم رہنماء کے انتقال کے موقع پر آخری رسومات میں شرکت کیلئے متعدد عالمی شخصیات جنوبی افریقہ میں جمع ہوئیں جبکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے خصوصی دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا۔ آج نئے جنوبی افریقہ کے معمار نیلسن مینڈیلا ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن دنیا بھر میں نیلسن مینڈیلا ڈے منایا جانا اس تاریخی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ تمام تنازعات کاپائیدار حل ڈائیلاگ میں پنہاں ہے، دشمنی ہاتھ ملانے سے ختم ہوتی ہے، ہمیں اس کرہ ارض کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے نیلسن مینڈیلا کے وژن سے استفادہ کرنا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین