• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کی فطرت میں ہمیشہ یہ کجی رہی ہے کہ جب قدرت اسے سیکھنے کے مواقع مہیا کرتی ہے تو وہ اس طرف مائل نہیں ہوتا۔ اگر وہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران مطالعہ پر خاص توجہ دے تو اس کی صلاحیتیں نکھر جائیں۔ مطالعے کا شغف معلومات کو پڑھ کر اپنے الفاظ میں لکھنے کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ تاہم، نصابی کتب کا مطالعہ طالب علموں کے لئے ہمیشہ بوریت کا باعث رہا ہے۔ بیشتر طالب علم نصابی کتاب ہاتھ میں اٹھاتے ہی اس بوجھ اور دبائو سے دہرے ہوئے جاتے ہیں کہ ان اسباق میں سے سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس بوجھ اورخوف کو ختم کرنے کے لئے اساتذہ اوروالدین کو مشترک کردار ادا کرنا ہوگا۔

گروپ ریڈنگ

کلاس روم میں ٹیچر کو کوئی بھی سبق پڑھانے سے پہلے طالب علموں کو اس کا مختصر تعارف پیش کرنا چاہئے، مثلاً ہم جو سبق پڑھنے جا رہے ہیں اس میں کیا سبق پوشیدہ ہے یا کون سی معلومات اہم ہے۔ سبق کے اس خلاصے کے بعد طالب علموں کے سامنے سبق پڑھنے سے پہلے انہیں یاد دلایا جائے کہ ایک ایک لفظ کو غور سے سننا ہے کہ اس کی ادائیگی و آواز کیا ہے۔ اس کے بعد ہر ایک طالب علم سے پیراگراف در پیراگراف پڑھوائیں۔ جب وہ پڑھ چکیںتو ان سے کہیں کہ اب اسے غور سے دوبارہ پڑھیں، اس پیراگراف سے سوال ہوگا۔ اس طرح یہ گروپ ریڈنگ طالب علموں کو مطالعہ کی طرف راغب کرے گی۔ اتنا ہی نہیں طالب علموں سے اس سبق کا خلاصہ کروائیں، اس عمل سے ان میں مطالعہ کی عادت پختہ ہوگی۔

کلاس روم لائبریری

کلاس روم صرف روسٹرم اور ہال نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمام دیواریں تدریس پر مشتمل کتابوں کی خوبصورت الماریوں سے سجی ہونی چاہئیں۔ جیسے کہ پہلی کلاس کی نصابی کتب اور ان میں موجود اسباق میں معلومات کے حوالے سے مزید کتب موجود ہوں۔ کتاب دوستی کی جانب راغب کرنے کے لئے انہیں ہر ہفتے ایشو کی جانے والی کتاب کا مطالعہ کر کے آنے اور اپنا مضمون، تبصرہ اور تنقید لکھنے پر فائیو اسٹار دیئے جائیں جبکہ پروجیکٹر پر سبق سے متعلق معلوماتی ویڈیوز دکھا کر انہیں کتاب کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے۔

درجہ بہ درجہ مطالعہ

مطالعے کی عمر اس وقت سے شروع ہو جاتی ہے جب بچہ روتے ہوئے اس دنیا میں حیران نظروں سے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ذہن میں احساسات کی کہانی مشاہدے سے جنم لیتی ہے اور تعلیم کا پہلا تعارف بول چال ہوتا ہے۔ جب بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو نت نئے الفاظ سے اس کا تعارف ہوتا ہے۔ حرف مل کر لفظ تشکیل دیتے ہیں اور الفاظ مل کر جملہ اور جملے مل کر پیراگراف، پیراگراف مل کر ایک مضمون و کتاب کی صورت ڈھلتے ہیں۔ انہی الفاظ کے ذریعے شاعری و کہانی سے ہمارا تعارف ہوتا ہے۔ اس لئے اپنے بچوں میں مطالعے کی عدالت کو گریڈوائز بڑھائیں۔ بالخصوص پرائمری کے بعد ادب، سائنس،فلسفہ ومنطق، اخلاقیات، ہنر اورموٹی ویشنل کتابوں کامکمل پیکیج ہونا چاہئے۔ کتاب پڑھنے کے لئے مشورہ والدین دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ہر بچہ لٹل پروفیسر زیڈان حامد کی طرح نکلے۔ جن گھرانوں میں مطالعہ کے کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے، وہاں بچے کامیابی و کامرانی کی شارع پر گامزن ہوتے ہیں۔

اسٹڈی روم لائبریری

کسی بھی طالب علم میں مطالعے کا شوق گھر سے ترتیب پاتا ہے۔ والدین کو ادب سے شغف ہے تو گھر میں کتابیں لازمی ہوں گی لیکن ڈاکٹر، انجینئر یا کاروباری شخصیت ہیں تو غالب امکان یہی ہے کہ کتابوں کا زائد ذخیرہ موجود نہ ہو۔ والدین کو چاہیے کہ مطالعے کے کلچر فروغ دینے کے لیے بچوں کے اسٹڈی روم کو لائبریری کی شکل دے دیں۔ اس کے علاوہ آپ رات کو سونے سے پہلے کتاب کے مطالعے اور ناشتے سے قبل اخبار کی ورق گردانی کو اپنی عادت بنائیں۔ آپ کے اس لائف اسٹائل کو دیکھ کر بچے بھی مطالعہ کی عادت اپنائیں گے۔ آپ کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے ہوئے ان سے پوچھیں کہ آج کیا پڑھا۔

نصاب سے متعلق کتابیں، انسائیکلوپیڈیا اور چلڈرن ڈکشنری سمیت ادب، سائنس، مذہب، ناول، کہانی، تاریخ اور فلسفہ کی کتابوں کا سیٹ جبکہ عظیم سائنس دانوں، ادیبوں اور نامور شخصیات کی سوانح عمریاں آپ کے بچوں کو کتاب کی مہک سے سرشار کریں گے۔ والدین کو بھی بچوں سے کہانی و معلومات شیئر کرنی چاہیے۔ تعلیم یافتہ والدین کا یہ فرض منصبی بنتا ہے کہ وہ بچوں کے ابتدائی ادوار میں کتاب سے محبت اور اسٹڈی کلچرکو فروغ دیں۔ ہر ماہ کتابوں کی خریداری کے لئے نہ صرف خود رقم مخصوص کریں بلکہ اپنے بچوں میں بھی کتاب خریدنے کی عادت استوار کریں۔ بچوں کو ای بُکس اور اشاعتی کتابوں کے ایسے کلکشن سےمتعارف کرایا جائے، جنہیں آج کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ مطلوبہ معلومات کے بطن تک پہنچنے کی جستجو پروان چڑھانے میں والدین کوصرف حوصلہ افزائی کرنی پڑتی ہے،پھر ایک بار پڑھنے کی لت پڑ جائے تو خود بخود زیست کتاب بن جاتی ہے۔

تازہ ترین