• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھٹی صدی عیسو ی سے اسلامی کلاسک آرکیٹیکچرکی ابتدا ہوئی۔ مسجد ومدرسہ پہلی تعلیمی درسگاہ تھے، جہاں سے اسلامی ادب کی روشنی نے پوری دنیا میں اپنا اُجالا کر کے ایشیا و افریقا اور یورپ و امریکا جیسے براعظموں میں اپنے دیرپا اثرات مرتب کرکے محراب وگنبد کے اعلیٰ تعمیراتی شاہکاروں سے ایک عالم کو دیوانہ بنا دیا، اسے روحانی ومقدس عمارات کا طرزِ تعمیر (Spiritual architure) قرار دیا گیا۔ اسلامی طرز تعمیر میں گنبد کے تصور نے تمام تہذیبوں کو متاثر کرتے ہوئے تقلید و پیروی پر آمادہ کیا۔

مسجد الحرام اورخانہ کعبہ

سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں موجود مسجد الحرام سطح سمندر سے 330میٹر بلندی پر واقع ہے، جس کے مرکز میں خانہ کعبہ ہے۔ اس کی طرف رُخ کر کے دنیا بھر کے مسلمان پانچ وقتہ نماز ادا کرتے ہیں۔3لاکھ56ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلی اس مسجد کا تعمیراتی ڈیزائن اسلامی فن تعمیر کی مکمل تاریخ لئے ہوئے ہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزندحضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھوں ہوئی۔ بعدازاں مختلف ادوار میں زائرین کو سہولتیں پہچانے کے لیے مسجد الحرام میں توسیع اور تزئین وآرائش کا کام تسلسل سے جاری رہا۔ صفا ومروہ پہاڑیوں کے مابین سعی کے لئے راستہ ہموار کرکے اسے مکمل طورپر ایئرکنڈیشنڈکر دیا گیا ہے جبکہ مسجد کے گنبدوں، میناروں اور وسیع دالانوں کے طرز تعمیر میں اسلامی ثقافت کے نمایاں خطوط نظر آتے ہیں۔

سنہری گنبد، مسجد اقصیٰ

یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کو اعزاز حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور اسلامی فن تعمیر کی سب سے پرانی قائم ودائم مثال ہے اور اسے مقدس عبادت گاہ کا درجہ حاصل ہے۔ مسجد اقصیٰ کی منفرد پہچان اس کا سنہری گنبد ہے ،جسے685ء سے 691ء کے درمیان اموی خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے تعمیر کروایا۔ عمارت کا بیرونی ڈیزائن آٹھ زاویوں پر مشتمل ہے، جس کے ہر اطراف ایک دروازہ اور 7 کھڑکیاں ہیں جبکہ گنبد کا اندرونی ڈیزائن گول ہے۔ گنبد ماربل سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی ٹائلز، موزائیک، گلڈیڈ وڈ اور پنٹیڈ اسٹکو سے آرائش وزیبائش کی گئی ہے۔ مسجد کی تعمیر میں مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے معمار اور ہنرمند شامل رہے، جن کی انفرادی تکنیک اور اسٹائل کی جھلک آپ کو اس کے ڈیزائن میں نظر آئے گی۔ گنبد کو خالص سونے سے بنایا گیا ہے، جس کا قطر 20میٹر ہے ۔ اسے قبتہ الصخرہ(Dome of Rock)بھی کہا جاتا ہے۔

جامع مسجد قرطبہ

اندلس کی مسجد قرطبہ کو دیکھ کر علامہ اقبال نے جو نظم ’’اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود ‘‘لکھی، اس کا رومانس آج بھی برقرار ہے۔ مقدس عمارات کے طرز تعمیر کی جملہ خوبیاں یہاں یکجا نظر آتی ہیں، جسے اموی خلیفہ عبدالرحمٰن الداخل نے 786ء میں بنوایا تھا اور دو سال کے مختصر عرصے میں 80ہزار دینار خرچ کر ڈالے تھے۔ مسجد کی بیرونی چہار دیواری کو مضبوط وبلند کرتے ہوئے باہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پشتے بنائے گئے، جن پر کنگر ے آویزاں کئے گئے۔ بے شمار ستونوں کے سہارےچھت اس طرح کھڑی کی گئی کہ دونوں اطراف کئی متوازی راستے مل جائیں۔ ستونوں پر کھڑی نعلی محرابیں اسے ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان دیتی ہیں۔ ایک محراب پر دوسری محراب بنا کر انہیں چھت سے ملایا گیا ہے، جہاں کہیں کہیں گنبد بھی قائم کئے گئے ہیں۔ چھت سطح زمین سے تین فٹ بلند ہے ۔ اس کا جاہ و جلال آج بھی مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی کی یاد دلاتا ہے۔

آیا صوفیہ

ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع آیا صوفیہ بازنطینی اسلامی طرز تعمیر کی بہترین مثال ہے، جسے مشرق ومغرب کے مابین ملاپ کی عظیم علامت مانا جاتا ہے۔ یہ ایک مشرقی آرتھوڈوکس گرجا تھا، جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجا اور مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے عجائب گھر بنادیا تھا۔ حال ہی میں ترقی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ اسے دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا جائے گا۔ آیا صوفیہ بلاشبہ بازنطینی طرزِ تعمیر کا ایک شاہکار تھی، جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا۔ عثمانی دور میں مسجد میں کئی تعمیراتی کام کیے گئے، جن میں سب سے معروف16ویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات سنان پاشا کی تعمیر ہے۔ اس میں نئے میناروں کی تنصیب بھی شامل تھی، جو آج تک قائم ہیں۔ 19ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر کیا گیا۔1985ء میں اسے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا تھا۔

تازہ ترین