• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اور چپ ٹوٹ گئی۔
آخر نجومی بھی انسان ہیں، جذبات رکھتے ہیں اور منہ میں زبان بھی۔ پیشگو ئیاں کرنے والوں کے پیٹ پر اتنی بڑی بڑی لاتیں پڑیں کہ بالآخر وہ بھی پھٹ پڑے ۔برسرِعام کہہ دیا فال نکالنا طوطے کا کام ہے۔جو سیاست کار طوطے کی طرح زبان چلا کر لوگوں کے دلوں سمیت ملک کے مستقبل کو کَتر رہے ہیں وہ نجومی کے تھڑے پر بیٹھیں یا اپنا دھندہ کریں اورنجومیوں کو اپنا کاروبار کرنے دیں۔
کُل وقتی نجومیوں اور جزوقتی نجومیوں کے کام میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ پہلی قسم کے اصلی نجومی حاجت مندوں یا غریبوں کو کچھ دے سکیں یا نہیں ،جینے کی امنگ اور آنے والے کل کی امید ضرور دیتے ہیں جبکہ پارٹ ٹائم نجومی بم، بارود ، بے خبری ، بد خیری ، بد مزگی ، کور کلامی، ہلاکت ودہشت کی بے لگامی کا اعلان کرتے ہیں ۔ اس طرح گھر گھر لگے ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسکول جانے والی فرشتہ صفت مخلوق سے لیکر ان کی دل گرفتہ ماوٴں اور خوفزدہ والدین کو مزید پریشان کرتے ہیں۔ دونوں طرح کے نجومیوں کے کاروبار میں دوسرا فرق یہ ہے کہ تھڑے پر بیٹھنے والے خواب فروش ہیں جبکہ اختیار والے پارٹ ٹائم نجومی خوف فروش۔ اس صدی میں کون نہیں جانتا کہ خوف ایٹم سے بھی بڑا بم ہے، صحیح معنوں میں ڈرٹی بم، مگر یہ ہے بڑے مزے کا کا روبار۔ اسی لئے اس قومی مزے کا ذائقہ چکھنے کے لئے پیشگو ئیوں کے تھڑے بند ہو رہے ہیں کیونکہ اس میدان میں مقابلہ سخت اور وقت کم رہ گیا ہے ۔ خود سو چئے 35/36 روز کتنے دن ہوتے ہیں؟چیف ایگزیکٹو نے طرح دی ،زبان کھولی تو لگ پتہ جائے گا کون جمہوریت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ الیکشن گھر کے کمشنر نے گرہ لگائی کہ مجھے بھی معلوم ہے کچھ لوگ الیکشن کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اعلیٰ ترین فیصلے کرنے والے بھی یہ کہہ کر خبروں کی اس دوڑ میں شریک ہو ئے کہ خبردار ، ہوشیار ہم کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔اجازت سے یاد آیا جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل آغا یحییٰ ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف شاید اجازت نامہ لیکر آئے ہوں؟ اس لئے اجازت والی پابندی خوب رہی۔
کچھ لو گوں کے نزدیک پاکستان کی گورننس اور سیاست ڈرٹی بزنس بنتا جا رہا ہے اس لئے ایسی ترقی پر مائل مارکیٹ میں ڈرٹی بزنس کے ماہرین کا امپورٹ ہونا خبر نہیں ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر سربراہِ ریاست سمیت مگرآرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے سوا تمام آئینی اداروں کے بڑے یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کے خلاف کو ئی سازش ہو رہی ہے یا اسے کو ئی ڈی ریل کرنے پر تلا ہوا ہے تو پھر ایسا کہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ سازش گر کا نام لیں جو پاکستان میں چھٹی مرتبہ آئین توڑنا چاہتا ہے،آخر نام لینے میں حرج کیا ہے؟ کوئی انجانہ خوف یا کچھ اور ؟ جمہوریت کے خلاف سازش پر کمربستہ جتھے کو بے نقاب کرنا آئین کی بالادستی کے دعوے کرنے سے بڑا کام ہے ورنہ ایک ایسا ملک جس کے تین صوبوں میں کم درجے کی نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر بدامنی اور غارت گری روٹین بن گئی ہے وہاں منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے خوف کی ٹیکنالو جی کا استعمال ظالمانہ مذاق ہے ۔ اگر واقعی ان خطرات کا ادراک اور علم رکھنے والے بیان دے رہے ہیں ، وہ بھی ایسے ذمہ دار آئینی عہدیدار کہ جن کی بات شہ سرخی بناتی ہے تو پھرانہیں سازش بے نقاب کرنی ہو گی۔ ہاں ایک وجہ ایسی ہو سکتی ہے جسے ہم استثنیٰ کہہ سکتے ہیں ۔ بقول شاعر
شریکِ جرم نہ ہو تے تو مخبری کرتے!
تعزیرات پاکستان سمیت دنیا بھر کے قانونی نظاموں میں ایک شدید جرم یہ ہے کہ کسی کو جرم کا پتہ ہو اور وہ خامو ش رہے ، مجرم یا ظالم کو چھپائے، اس کے کرتوت پر پردہ ڈالے ، اسلامی شریعت کی رو سے تو یہ اور بھی بڑا ظلم ہے ۔ معاشرے جوں جوں پیچیدہ ہو رہے ہیں ظالموں کی نئی نئی قسمیں سامنے آ رہی ہیں ۔ اتنے بڑے پیمانے پرگیس پیدا کرنے والا ، درآمد ی اور لاتعداد قدرتی گیس کے ذخائر کی ملکیت رکھنے والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان بھر میں صرف 23فیصد گھرانے ایسے ہیں جہاں گھریلو صارفین کو گیس کی سہولت میسر ہے،77فیصد گھروں میں گیس کنکشن ہی سرے سے موجود نہیں ۔ ذکر ہے جرائم کا تو ذرا یہ بھی جان لیجئے کہ صرف سندھ میں چوراسی ہزار نو سو ساٹھ مفرور اور اشتہاری دندناتے پھرتے ہیں ۔ پنجاب ، کے پی کے، بلو چستان ، وفاقی دارالحکومت، فاٹا ، آزاد جموں و کشمیر ، گلگت بلتستان کے اعداد و شمار مل جائیں تو شاید ہر دسواں آدمی دس نمبری ،عدالتی اشتہاری یا وارداتی مفرور لگے۔دنیا کا کوئی سماج ایسا نہیں جہاں درجن بھر مرغیاں گنوا بیٹھنے والا کاشتکار ، تاجر یا دکاندار چین سے بیٹھتا ہو ، لیکن ہم بھی کیا قوم ہیں جس کے ایک شہرِ پاکستان یعنی کراچی میں روزانہ لاشیں گرتی ہیں اور اسی شہر میں بائیس ہزار سات مفرور قاتل سینہ تان کر گھومتے ہیں مگر کو ئی مائی کا لعل ایسا نہیں جو ان کی کلائی میں ہتھکڑی ڈال کر انہیں انصاف کے مندر تک کھینچ لائے۔
اس سے کون انکاری ہے کہ ہماری مساوات، ہمارا انصاف ، عدل گستری ، جمہوری نظام اور آئینی جھمیلے بین الکلیاتی بلکہ محکمہ جاتی تقریری مقابلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پہلے یہ مقابلہ سرخیوں تک محدود تھا اب شہ سرخیوں سے مہا سرخیوں تک پہنچ گیا ہے ۔ اسی ایک شہر کے مختلف تھانوں میں انیس ہزار درج شدہ مقدمات ِقتل ، جلاوٴ گھیراوٴ ، بلوا ، دہشت و وحشت گردی ، اغوا برائے نقصان و تاوان کے مقدمات ہیں مگر چلانے والا کوئی نہیں۔
کراچی کا کرائم چارٹ بتاتا ہے پچھلے سال انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اکیس مقدمات کا فیصلہ کیا ۔16 مقدمات کے ملزم مونچھوں کو تاوٴ دے کر بری ہو گئے ،صرف پانچ عدد مقدمات میں ملزمو ں کو سزا ملی۔
شورش کاشمیری نے جو معرکتہ الآراء نظمیں کہیں ،اُن میں ایک کا نام مسلمان رکھا ۔ خاص بات یہ ہے کہ شورش نے اس کے دو ذیلی عنوان بھی رکھے یعنی دولت کے بھکاری ، طاقت کے پجاری شورش نے لکھا:
سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولاد پیمبر ﷺ کا تماشا دیکھا
سانحہ کربلا پر تحریر کی گئی دل پھاڑ دینے والی اس نظم کے آخری دو اشعار یہ ہیں۔
اے میری قوم ! تیرے حسن ِ کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا،وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے ؟ یہ کیا ہے؟مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے ؟ مجھے کچھ سوچنے دے
آتش بیان وشعلہ نگار شورش ہر طرح کی شورشوں سے عمر بھر لڑتے رہے مگرسچ بو لتے ،سچ لکھتے رہے ۔ ان کی فکرکتنی پختہ ، سوچ کس قدر گہری تھی یہ اشعار اس کا کافی سے زیادہ ثبوت ہیں لیکن ہم سنجیدہ سے سنجیدہ ملکی و قومی معاملات میں کیسے سوچتے ہیں اس کا عملی نمونہ دیکھنے کے لئے حالیہ دو کمیشنوں پہ سرسری نظر ڈالئے، ایک ہزار شہداء کے خون سے رنگین کارگل کے میدان حرب کو ہم ڈرامہ کہتے ہیں جبکہ بھارت کا سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ اسے پاکستانی عساکر کی حوصلہ مندی بتاتاہے۔ ہمیں تیرہ سال بعد جوڈیشل کمیشن چاہئے جو اس محاذ پر جان لٹانے والوں کی قبروں کی مٹی پلید کرسکے۔دوسرا کمیشن جسے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خالد محمود نے بدنیتی پر مبنی قرار دیا ۔اس میں صوبے بنانے کیلئے جس صوبے کے بطن سے علاقے نکالے جانے ہیں اس کی سربراہی کیلئے اس صوبے سے کوئی معتبر یا قابل اعتبار پارلیمنٹیرین ہی نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ میں نے سرائیکی علاقے کے سرخیل صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف دوست کو وہ تفصیلات و دستاویزات بتائی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ ڈھائی سال پہلے جنوبی پنجاب صوبہ بن رہا تھا مگر اس کا چوکیدار بھمبھور کے لٹنے کا انتظار کرتا رہا ۔انتظار سے یاد آیا ،لاڑکانہ سمیت سندھ کے لا تعداد سوشل موبلائزر،جنہیں سماج کی خدمت کرتے زمانے بیت گئے ،ان کی ملازمت کنٹریکٹ کے کچے دھاگے سے جڑی ہے۔ امید ہے ان سطور کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کے میرے محترم چیف جسٹس اور سوشل موبلائزرز کے وزیر اعلیٰ و کابینہ تک ان بے آسرا جوانوں کی آواز پہنچے گی اور ایک ایسا ملک جہاں 80سال والوں کیلئے پکّی نوکریوں کے دروازے کھلے ہیں وہاں غریبوں کی مستقلی کے احکامات جلد جاری ہوں گے ۔ بات چلی تھی نام لینے میں حرج کیا ہے سے ۔ ایک نام میں بھی لے لیتا ہوں۔ عساکر ِ پاکستان کو جس قدر مواقع دیئے یا دکھائے گئے کہ وہ TVہیڈ کوارٹر کی دیوار پھلانگیں لیکن جس قدر حوصلہ وضبط انہوں نے دکھایا ان کا نام تو کلیئر ہے لیکن اگر چئیر ٹیکر کی دوڑ میں شریک سیاستدان کئیر ٹیکر وزیراعظم نہ بنا سکے تو پھر خود سوچ لیجئے فیصلہ کون کرے گا؟ اور بنگلہ دیش ماڈل کیا کہتا ہے؟
تازہ ترین