صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں گزشتہ روز پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ اور پھر مبینہ خودکش حملے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت دس افراد کی شہادت اور بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے، فی الحقیقت اس امر کا اظہار ہے کہ فوجی آپریشنوں اور دیگر اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پا لیے جانے کے باوجود ماضی میں ملک کے طول و عرض میں بدامنی کا طوفان بپا رکھنے والی طاقتیں آج بھی ایسی وارداتوں کے ارتکاب کے لیے منصوبہ بندی کی صلاحیت، افرادی قوت اور مالی وسائل رکھتی ہیں۔ اس المناک واقعے کی جو تفصیلات ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے فراہم کی ہیں ان کے مطابق چار موٹر سا ئیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے صبح پونے آٹھ بجے چیک پوسٹ پر فائرنگ کی جس سے دو اہلکار موقع پر شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ، زخمیوں کو اسپتال لے جایا گیا تو وہاں خودکش حملہ کردیا گیا جس کے باعث مزید چار اہلکار اور چارشہری شہید ہوگئے۔ ابتدائی تحقیقات میں خودکش حملے میں ایک پندرہ سالہ لڑکی کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اس منظم واردات سے واضح ہے کہ اس میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا وسیع تجربہ رکھنے والی کسی تنظیم کا ہاتھ ہے لہٰذا ٹی ٹی پی کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول کیے جانے کا دعویٰ درست نظر آتا ہے۔ اخباری بیان میں اس کارروائی کو ایک ساتھی کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کامیاب واردات کے بعد دہشت گرد عناصر کے حوصلے بلند ہوں اور وہ ایسی مزید کارروائیوں کی کوشش کریں لہٰذا ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کا ہائی الرٹ رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آج جب پاکستان کی کامیاب کوششوں کے نتیجے میں امریکہ اور افغان طالبان امن مذاکرات کے حتمی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں تو پاکستانی طالبان کو بھی امن اور مفاہمت کی راہ کو اپنانا چاہئے اور ہمارے مقتدر اداروں کو اس کے لیے حالات کو سازگار بنانا چاہئے۔