• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج ویڈیو اسکینڈل، نوا زشریف کوریلیف ہائیکورٹ دے سکتی ابھی تک کوئی وہاں نہیں گیا، چیف جسٹس

اسلام آباد(مانیٹرنگ سیل) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس پر ایف آئی اے کو 3؍ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کوئی کمیشن احتساب عدالت کا فیصلہ نہیں ختم کر سکتا صرف رائے دے سکتا ہے جبکہ شواہد کا جائزہ لیکر ہائیکورٹ ہی نوازشریف کوریلیف دے سکتی ہے،ابھی تک کوئی وہاں نہیں گیا، جج نے ایک کیس میں سزا دی دوسرے میں بری کیا، ہائیکورٹ ازسر نو ٹرائل کیلئے کیس بھیج سکتی ہے اورشواہد کا جائزہ لیکر خود بھی فیصلہ کرسکتی ہے،کیا سپریم کورٹ کی مداخلت کا فائدہ ہوگا یا صرف خبریں بنیں گی،اندھیرے میں ہاتھ پاؤں نہیں چلانا چاہتے،ہم تحقیقاتی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کرینگے، جج کےکنڈکٹ کا خود جائزہ لینگے، کیا سزا کے بعد جج کا مجرم کے گھر جانا درست ہے؟ جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لینگے۔ جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ فریقین کے الزامات کی حقیقت جاننا چاہتی ہے،دیکھنا ہوگا کہ جج کی تضحیک ہوئی یا یہ الزام سچ تھا، ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق درخواستوں کی مخالفت کی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 16 جولائی کو ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا، اس میں شق 20، 21 اور 24 کا اطلاق کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج ارشد ملک بیان حلفی جمع کراچکے ہیں، ایف آئی اے کو شکایت بھی درج کراچکے ہیں اور ایف آئی اے سائبر کرائم کے تحت مقدمہ بھی درج کر چکی ہے،سائبر کرائم کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جُرمانہ ہے، فحش ویڈیو یا تصویر بنانے کی سزا 5 سال قید اور 6 لاکھ روپے جُرمانہ ہے، کسی کو نقصان پہنچانےکے لیے ویڈیو یا تصویر پھیلانے کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ ہے جبکہ الیکٹرانک جعل سازی پر تین سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جُرمانہ ہے۔اٹارنی جنرل نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے ملزم طارق محمود کو اس کیس میں گرفتار کیا ہے کیونکہ انہوں نے میاں سلیم رضا کو ویڈیو فروخت کی اور سلیم رضا نے یہ ویڈیو ناصر بٹ کو بیچ دی،ایف آئی اے نے طارق محمود کا ریمانڈ لے کر جیل بھیج دیا ہے جبکہ ناصر بٹ اورسلیم رضا دونوں ملک چھوڑکرجا چکے ہیں۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ نوازشریف نے اپیل کب دائر کی تھی؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جج کے مطابق نوازشریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی تھی اور انہوں نے بروقت اپیل دائرکی تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر اپیل اپریل میں دائر ہوئی تھی تو جج نے اپریل میں اس کا جائزہ کیسے لیا؟ چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ویڈیو سے جج کے موقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا، ویڈیو میں ایسا کیا ہے ہم نہیں جانتے، ایک ویڈیو کی تصدیق کروائی گئی ہے، جج نے ایسی حرکت کی تھی تب ہی وہ بلیک میل ہوا تاہم بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ایک ویڈیو وہ بھی ہے جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی،آڈیو اور ویڈیو کی ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی تھی جبکہ پریس کانفرنس میں آڈیو اور ویڈیو کو جوڑ کر دکھایا گیا،آڈیو ویڈیو مکس کرنے کا مطب ہے اصل موادنہیں دکھایا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریس کانفرنس والی اصل ویڈیو کو ریکور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ایک آپشن آپ نے ایف آئی اے اور دوسرا نیب قانون کا دیا ہے، تیسرا آپشن تعزیرات پاکستان اور چوتھا پیمرا قانون کا دیا ہے، پانچواں آپشن حکومتی کمیشن اور چھٹا جوڈیشل کمیشن کا ہے جب کہ آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت خود فیصلہ کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے، کیا مجرم کے رشتے داروں اور دوستوں سے گھر اورحرم شریف میں ملنا درست ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی نے ہائیکورٹ میں کوئی درخواست نہیں دی حالانکہ ملزم جیل میں بیٹھا ہے،اگر رہائی کیلئے ویڈیو منظرعام پرلائی گئی تو ہائیکورٹ میں کوئی درخواست کیوں نہیں دی،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ ہم تمام درخواستیں خارج کردیں،فکر نہ کریں جج کے کنڈکٹ پر خودفیصلہ کرینگے، کسی کے کہنے پر ایکشن نہیں لینگے، وزیراعظم نے بھی کہا عدلیہ از خود نوٹس لے، کچھ کرنا ہوا تو دیکھ اور سوچ سمجھ کرکرینگے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تمام کارروائی متعلقہ فورم پر ہونی چاہیے، عدالت نے تمام الزامات کی سچائی کا جائزہ لینا ہے اور ہم نے عدالت کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نےویڈیو اسکینڈل سے متعلق دائردرخواستوں کی مخالفت کی ہے،قانونی فورم دستیاب ہے تو کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں جبکہ پیمرا قانون کا اطلاق ٹی وی چینل پر ہوتا ہے۔بعد ازاں عدالت نے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

تازہ ترین