بورس جانسن کے پڑدادا کا شمار آخری مسلم خلافت ترک سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کی اہم شخصیات میں ہوتا ہےگزشتہ دنوں کنزرویٹو پارٹی کے نئے قائد کے انتخاب کے سلسلے میں ٹیلیویژن پر ہونے والے ایک مباحثے کے دوران برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے مسلمان آباؤ اجداد کا حوالہ دیا۔ کچھ لوگوں کو یہ بات محض ایک سیاسی بیان یا گپ لگی، لیکن اس سے کئی سوالوں نے جنم لیا۔یہ اس لیے بھی حیران کن تھا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ہی بورس جانسن بُرقعے میں ملبوس مسلمان عورتوں کو لیٹر باکس اور بینک لوٹنے والے ڈاکوؤں سے تشبیح دے کر ایک تنازعہ کھڑا کر چکے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ چند پشتوں پہلے بورس جانسن کا خاندان ناصرف مسلمان تھا بلکہ ان کے پڑدادا کا شمار سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔معروف ترک اخبار ’حریت‘ کے مطابق بورس جانسن کے پڑدادا کا نام علی کمال تھا اور وہ ایک صحافی اور لبرل سیاستدان تھے۔ علی کمال کے والد کا نام احمد آفندی تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔ وہ اس وقت کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول میں1867 میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ حنیفہ فریدے سر کیشیائی نسل سے تھیں اور احمد آفندی کی دوسری اہلیہ تھیں۔ علی کمال نے ابتدائی تعلیم استنبول میں حاصل کی لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک کا سفر اختیار کیا۔ وہ اس سلسلے میں جنیوا اور پیرس میں مقیم رہے جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں ڈگری مکمل کی۔بیرون ملک قیام کے دوران ہی علی کمال نے 1903 میں ایک سوئس-انگریز خاتون ونی فریڈ برون سے شادی کی۔ اس شادی سے ان کے دو بچے ہوئے۔ بڑی بیٹی کا نام سلمیٰ رکھا گیا جبکہ ان کے بیٹے کا نام عثمان علی تھا۔ عثمان علی کی پیدائش کے فوراً بعد علی کمال کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور دونوں بچوں کو پرورش کے لیے ان کے ننھیال کے ہاں بھیج دیا گیا جو اس وقت برطانیہ میں رہتے تھے۔ دونوں بچوں کی پرورش ان کی نانی مارگریٹ برون نے کی۔ ناموں کی تبدیلی اپنے ننھیال میں دونوں بچوں نے اپنے نام تبدیل کر لیے تاکہ وہ اس وقت کے برطانوی معاشرے میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ عثمان علی بعد میں ولفریڈ عثمان جانسن کے نام سے پہچانے گئے۔ولفریڈ نے جوان ہو کر ایرین وِلس نامی ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی جس سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے، بورس کے والد سٹینلے جانسن، چچا پیٹر جانسن اور پھوپھی ہِلری جن کا خاندان بعد میں آسٹریلیا منتقل ہو گیا۔ علی کمال کا خاندان صرف سلمی اور عثمان علی تک محدود نہیں رہا کیونکہ بعد میں علی کمال نے ایک ترک خاتون صبیحہ خانم سے شادی کی جو سلطنت عثمانیہ کے دربار سے وابستہ ایک نواب ذکی پاشا کی بیٹی تھیں۔ اس شادی سے ان کے ہاں سنہ 1914 میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ذکی کنرالپ رکھا گیا۔ علی کمال صرف تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہی بیرون ملک نہیں گئے بلکہ کئی مواقع پر انھیں اپنے لبرل سیاسی خیالات کی وجہ سے بھی جلا وطنی اختیار کرنی پڑی جس دوران وہ برطانیہ اور شام میں مقیم رہے۔ جب برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تو علی کمال نے قابض فوج کا ساتھ دیا۔ قبضے کے چار سال بعد جب ملک میں ایک طفیلی حکومت قائم کی گئی تو علی کمال اس میں وزیر داخلہ تھے لیکن یہ حکومت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور تین ماہ بعد ہی اس کا خاتمہ ہو گیا۔قابض فوج کا ساتھ دینے کی وجہ سے ان کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا تھا اور ان لوگوں میں اس کی شدت خاص طور پر زیادہ تھی جنھوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگِ آزادی میں جانی اور مالی نقصان برداشت کیا تھا۔علی کمال کو 4 نومبر 1922 کو اس وقت اغواء کر لیا گیا جب وہ استنبول میں ایک حجام کی دوکان پر موجود تھے۔ ان کو اغواء کرنے والے نورالدین پاشا نے آزادی کی جنگ میں دو بیٹوں کو گنوایا تھا۔ علی کمال کو ایک ٹرین کے ذریعے ایک دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا کہ بلوائیوں نے ایک سٹیشن پر انہیں ٹرین سے اتار لیا اور مار مار کر قتل کر دیا۔ علی کمال کی اولاد میں سے عثمان علی کے سلسلۂ نسب نے ناصرف نام تبدیل کیے بلکہ انہوں نے عیسائی مذہب بھی اختیار کر لیا جبکہ ان کی دوسری شادی سے ہونے والے بیٹے ذکی کی اولاد ابھی تک اسلام کی پیرو کار ہے۔ذکی کنرالپ نے کمال اتا ترک کے انتقال کے بعد وطن واپسی اخیار کی اور اس وقت کے صدر کی خصوصی اجازت سے ترک محکمہ خارجہ میں شمولیت اختیار کی اور دو مواقع پر لندن میں ترک سفیر رہے۔ ان کے ایک بیٹے صنعان استنبول میں نشرو اشاعت کا کام کرتے ہیں جبکہ دوسرے سلیم اپنے والد کی طرح سفارتکار ہیں۔ لیکن تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ صنعان اور سلیم کے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے احمد آفندی کی نسل برطانیہ میں موجود جانسن قبیلے اور ہِلری کی اولاد سے آسٹریلیا میں ہی آگے بڑھے گی جس میں ترک النسل ہونے کی واحد نشانی بورس جانسن کی بہن ریچل جانسن کا درمیانی نام صبیحہ ہے جو انہیں اپنی پڑدادی کے نام پر دیا گیا تھا۔