پوری دنیا میں جہاں بھی شعر و ادب پڑھا اور لکھا جاتا ہے، وہاں ایک ادبی اعزاز کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے، اس کا نام’’نوبیل ادبی انعام‘‘ ہے۔ کامیاب ہونے والے ادیب کے لیے یہ اہم وقت ہوتاہے، وہ اس موقع پر انعام وصول کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرے، اپنی بات کہنے کی اس رسم کو’’کلیدی خطبہ‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں ادیب، شاعر اور دیگر شعبوں میں انعام حاصل کرنے والے اپنی زندگی کے ذاتی اور پیشہ ورانہ پہلوئوں پر خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
پاکستان کے معروف شاعر اور مترجم باقر نقوی نے’’نوبیل ادبیات‘‘ کے نام سے (1900-2000) سو برس کے نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کا ترجمہ کیا۔ ان تراجم کی اہمیت کا اندازہ دو باتوں سے لگایا جاسکتا ہے، مترجم نے ان خطبات کا ترجمہ کرنے کے لیے سویڈش اکادمی سے براہ راست اجازت لی، پھر خطبات کا ترجمہ اتنا سلیس اور بامحاورہ کیا کہ قاری کو گمان ہوتا ہے، ان تخلیق کاروں نے خیالات کا اظہار اپنی مادری زبانوں میں کرنے کی بجائے اردو زبان میں کیا ہے۔
2003 میں ادبی دنیا کے اس مقبول ترین انعام کے موضوع پر لکھا گیا ناول’’دی وائف‘‘ یعنی ایک بیوی شائع ہوا، جس کی مصنفہ’’میگ وولٹرز‘‘ ہیں۔ 219 صفحات پر مشتمل ناول کو اسکریبنر نامی اشاعتی ادارے نے شائع کیا۔ امریکا میں مقیم یہودی برادری سے تعلق رکھنے والی اس مصنفہ کا قلمی رجحان، مغرب میں عورتوں کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریک’’حقوقِ نسواں‘‘ سے متاثر ہے۔ زیرِ نظر ناول بھی اس رجحان کی عکاسی کر رہا ہے۔
ناول کی کہانی میں مرکزی کردار کے طور پر ایک ایسی عورت دکھائی گئی ہے، جس میں بے پناہ ادبی صلاحیتیں تھیں۔ وہ بطور ادیبہ کیرئیر کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں تھی، لیکن اشاعتی اداروں میں مردوں کی روایتی اجارہ داری آڑے آنے کے ڈر سے وہ اپنی خواہش کی تکمیل کا ایک دوسرا راستہ نکالتی ہے، وہ یوں کہ اپنی یونیورسٹی کے لیکچرر سے شادی کر لیتی ہے، جو ایک سطحی ادیب تھا، آگے چل کر شوہر بھی سطحی ثابت ہوتا ہے۔ وہ خاتون اُسے ناول لکھ لکھ کر دیتی رہتی ہے، جو شوہر کے نام سے چھپتے رہتے ہیں اور وہ بطور ادیب معاشرے میں ایک ادبی مقام حاصل کرلیتا ہے، اسی تناظر میں ایک دن ایسا آجاتا ہے، جب اس کا شوہر اپنے ایک ناول کی وجہ سے نوبیل ادبی انعام کا حق دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
نوبیل ادبی انعام کی خوشی دونوں کی زندگی میں غم لے کر آتی ہے، کیونکہ شوہر کو ڈر ہوتا ہے کہ اب کہیں اس کا بھید نہ کھل جائے، جبکہ بیوی زندگی کے اس موڑ پر سوچتی ہے کہ اُس نے یہ کیاکیا۔ ایک ایسے شخص کو تمام زندگی مضبوط کرتی رہی، جس کی وجہ سے وہ خود کمزور ہوگئی، اپنی ذات سے بچھڑگئی، اپنے سارے خواب تج دیے۔دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کے ہمراہ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم جاتے ہیں، تاکہ نوبیل ادبی انعام وصول کیا جاسکے۔ اس موقع پر شوہر ادیب کی غیر ادبی حرکتیں اور انعام وصول کرتے وقت بیوی کی ادبی صلاحیتوں کا ذرا سا بھی اعتراف نہ کرنا صورتحال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ بیوی اس سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کو ماضی کا آئینہ دکھاتی ہے، یہ غم اس کے شوہر کے لیے دل کے دورے کا سبب پیدا کرتا ہے، وہ ہوٹل کے کمرے میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس کی بیوی اپنے شوہر سے طویل تعلق اور رفاقت کا لحاظ سے رکھتے ہوئے اس کی ادبی پاسداری اور ساکھ کو قائم رکھنے کا تہیہ کرتی ہے، اس کی اولاد اور ایک صحافی، جن کو یہ راز پتہ ہوتا ہے کہ اصل میں ناول نگار اس کا شوہر نہیں وہ تھی، اُن کو سختی سے اس راز پر سے پردہ اٹھانے سے منع کر دیتی ہے، پوری کہانی اسی طرح فلیش بیک اور موجودہ دور کے درمیان آگے بڑھتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ اس ناول پر 2017 میں ماخوذ شدہ’’دی وائف‘‘ کے نام سے فلم بنائی گئی، جس نے ریلیز کے بعد مقبولیت حاصل کی۔ فلم کے اسکرپٹ میں معمولی تبدیلیاں کی گئیں، لیکن بنیادی کہانی اور کردار وہی رہے، جو ناول میں تھے، البتہ فلم بناتے ہوئے کہانی کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ اس فلم کے اسکرپٹ رائٹر’’جینی اینڈرسین‘‘ ہیں، جبکہ ہدایت کار’’بجورن ایل رونجی‘‘ ہیں، جن کا تمام فلمی کیرئیر سویڈش سینما کا ہے، یہ ان کی پہلی انگریزی فیچر فلم ہے۔ اپنے ملک کے اس اہم ادبی انعام کی عکاسی کرنے کی غرض سے، انہوں نے شاید اس موضوع پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا، جو درست فیصلہ تھا، لیکن انہیں اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے اور فلم کی تکمیل میں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا، لیکن ان کی محنت ضائع نہیں ہوئی، فلم نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی اور انگریزی فلموں کی دنیا میں بھی ان کو بطور ہدایت کار کافی شہرت مل گئی۔
حیرت انگیز طور پر اس فلم کی ریلیز کا سال وہ ہے، جس میں نوبیل ادبی اعزاز کا اعلان نہیں کیا گیا، جس کی وجہ’’می ٹو مہم‘‘ کے تناظر میں، سویڈش اکادمی کی ایک خاتون رکن کے شوہر کا متنازعہ ہونا ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والی خواتین کی طرف سے جاری اس مہم نے سویڈش اکادمی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اورماحول ابھی گرم ہی تھاکہ یہ فلم بھی ریلیز ہوگئی، جس میں ایک خاص تناظر سے اسی طرح کی صورتحال کو بیان کیا گیا ہے۔ شایدیہ بھی ایک وجہ ہے، فلم بینوں نے اس فلم کو پسند کیا۔
فلم میں کام کرنے والے اداکاروں میں مرکزی کردار Glenn Close اور Jonathan Pryce نے نبھائے اور اپنی پختہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔ بالخصوص بیوی کا کردار اداکرنے والی اداکارہ نے شاندار فنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجہ میں اُنہیں آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا، وہ آسکر ایوارڈ تو نہ جیت سکیں، لیکن کئی اور بڑے ایوارڈز اپنے نام کیے، جن میں گولڈن گلوب ایوارڈ، اسکرین ایکٹرس گلڈ ایوارڈ، کریٹیک چوائس مووی ایوارڈ ودیگر شامل ہیں۔ ان کی جوانی کا مرکزی کردار اداکرنے والی اداکارہ ان کی حقیقی بیٹی Annie Starke ہے ، جس نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ اس فلم کو اسکاٹ لینڈ کے شہر وں گلاسکو اور ایڈن برگ کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں بھی فلمایا گیا ہے۔ اچھی موسیقی اور رنگ برنگی روشنیوں کے امتزاج نے فلم کو پردے پر حسین بنا دیا۔
اس فلم میں کچھ تکنیکی غلطیاں بھی ہیں، جس طرح کہ اس فلم میں اس ادبی انعام کو حاصل کرنے کا سال 1992 دکھایا گیا ہے، لیکن اس سال جس شخصیت نے نوبیل ادبی اعزاز حاصل کیا تھا، وہ ناول نگار نہیں بلکہ شاعر اور ڈراما نگار تھے، ان کا نام Derek Walcottتھا۔ فلم کے ایک منظر میں سویڈن کے دارلحکومت’’اسٹاک ہوم‘‘ کو دکھاتے ہوئے، اس شہر کے ابتدائی منظر میں ایک نیلے رنگ کی بس دکھائی گئی ہے، جو نئے دور کا ماڈل ہے، اُس عرصے میں وہ بس نہیں بنی تھی، جو وقت فلم میں دکھایا گیا ہے۔
اسی طرح فلم میں ہوٹل کے کمرے میں کئی مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ باہر بہت برف باری ہورہی ہے، مگر جب بیرونی مناظر دکھائے گئے تو برف باری نہ ہونے کے برابر تھی۔ نوبیل انعام یافتگان کے لیے عشائیے کا انتظام جس جگہ دکھایا گیا ہے، وہ بھی درست مقام نہیں ہے۔ اسی طرح فلم میں اور کئی چیزیں ایسی دکھائی گئی ہیں، جن کا سویڈن یا نوبیل اکادمی سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہدایت کار کو چاہیے تھا، اس حوالے سے مزید باریکی سے کام کرتے، کیونکہ وہ خود سویڈش ہیں،تاکہ ایسی تکنیکی غلطیاں نہ ہوتیں۔بہرحال ناول کے مقابلے میں فلم کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ فلمی نقادوں اور فلم بینوں نے بھی اس فلم کو زیادہ سراہا۔ نوبیل انعامات کے ادبی شعبے میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔