• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال اے رحمان

یہ ۱۹۷۷ کے مون سون کا قصہ ہے ،جب دن کے وقت بارش کا آغاز ہوا، اور پھر مسلسل تیز بارش ہوتی رہی ، شام ہوئی اور بھی ڈھل گئی، مگر بارش تیز و مدھم ہوتی رہی سو ہوتی رہی، شہر جل تھل ہوکر ندی نالے کا منظر پیش کرنے لگا،مگر شہر کی واحد ندی جب جلال میں آئی تو غضب ہوگیا، مغرب کے بعد سیلابی ریلے نے بہار کالونی اور اس سے ملحقہ علاقوں کو چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور کر دیا، 30 جون کا وہ دن اور رجب کی 13 ویں تاریخ تھی، ۶ گھنٹوں کی مسلسل موسلا دھار بارش میں تقریباً ۲۰۷ ملی میٹر یا ۸ انچ مینہ برسا اور پورا شہر جل تھل ہوگیا، یہ وہ دور تھا جب انداز حکمرانی بدل رہے تھے، برٹش دور سے چلا آرہا نظم و ضبط مائل بہ رخصت تھا، ادارے زبوں حالی کا شکار تھے، یہ وہی سال تھا جب کراچی کو دنیا کا گندہ ترین شہر قرار دیا گیا تھا ، کراچی کا انفرا اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ اور سرکاری مشینری کام سے تساہل برتنے کی عادی ہورہی تھی، لہذہ بوسیدہ انفرا اسٹرکچر اس طوفانی بارش کی تاب نہ لاسکا اور بیٹھ گیا، امدادی سرگرمیاں کاہل انتظامیہ کے ہاتھوں سست روی کا شکار رہیں، لہذا شہر اور شہری بے دست و پاہ ہوگئے، مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا، جس کو درست ہونے میں عرصہ لگ گیا، کھلے ہوئے مین ہول، پھسلن اور گرے ہوئے کھمبوں اور ننگے تاروں کے کرنٹ نے سرکاری اعداد شمار کے مطابق ۲۴۸ ،مگر حقیقتاً ۱۰۰۰ سے ذائد افراد کی جان لے لی، ۳۰ جون کے سبب بینک اور حکومت کے مالیاتی ادارے کھاتہ بندی کے سبب روائتی طور پر رات کو کھلے تھے مگر دفتروں میں پانی آجانے اور ٹیلیفون و بجلی کے نظام کی پامالی سے کام کرنے سے قاصر تھے، نہ کام کرنے کی پوزیشن میں تھے اور نہ ہی گھر جانے کی، گویا نہ نگلنے کے نہ اگلنے کے ۔

ہر طرف پانی ہی پانی اور باہر نکلنے کا راستہ مسدود، ایک ہی راہ نظر آئی کہ آتمارام پریتم داس روڈ یعنی لیاری سے نکلیں اور سائٹ ایریا پکڑ کر فیڈرل بی ایریا کی راہ لیں، مگر اے بساء آرزو کہ خاک شدہ، یہاں بھی پانی کی شہہ زوری آڑے آئی اور گاڑی بند ہوگئی، گاڑی کو دھکے لگا لگا کر کلری پہنچے جہاں رشتے کی بہن کا گھر تھا، بند گاڑی وہاں ٹھہرائی انہوں نے بہیترا کہا کہ ہم نہ جائیں ان کے گھر رک جائیں مگر صلاح یہی ٹھہری کہ ہمیں نکل جانا چاہئیے، مرزا آدم خان روڈ پر پہنچے تو لیاری ندی کا وہ روپ دیکھا جو کبھی نہ دیکھا تھا، موجیں مارتا بپھرا ہوا پانی تھا ،جس میں کیا کچھ نہیں تھا جو بہا چلا آرہا تھا، نیشنل ریفائنری کے ڈرم تھے جو ایسے بہتے چلے جا رہے تھے۔

 جیسے سطح آب پر رنگ برنگی غبارے، ہم کسی طرح اس علاقے سے نکل کر عشاء کے لگ بھگ گھر پہنچے، جب اوسان اور گھر کی بجلی بحال ہوئی تو ٹیلی ویژن پر لیاری میں سیلاب کی خبر سنی، دراصل جسطرح عرض کیا یہ 13 رجب یعنی چودھویں شب تھی، پورا چاند اور اس کی کشش سمندر میں مدوجزر کا باعث تھی، لیاری والوں کی زبان میں سمندر میں بھرتی تھی، لیاری ندی کا پانی سمندر میں جانے سے قاصر تھا بلکہ سمندر اسے واپس دھکیل رہا تھا اسی واپس پلٹے پانی نے تباہی برپا کی اور لیاری کے درو دیوار بشمول ہماری گاڑی زیر آب آگئے ۔اس سیلاب سے بھی بہار کالونی سب سے زیادہ یوں متاثر ہوئی کہ یہ ندی کے ساتھ ہاتھ ملائے کھڑی ہے کہ ہر دم ہر آن سنگ رہیں گے ۔

کراچی کے عوام جو دیومالائی باتوں کی شوقین ہیں کئی دنوں تک ایسی باتیں کرتے رہے کہ بارش اگر دو چار گھنٹے اور برس جاتی تو پورا سمندر ہی الٹ سمت دوڑ پڑتا اور کراچی ایسا ڈوبتا کہ حبیب بینک پلازہ کی ۲۳ میں سے ۲۰ منزلیں ڈوب جاتیں، تین منزلوں کے ساتھ سمندر کیوں رعایت برتتا یہ معلوم نہ ہوسکا۔

تازہ ترین