• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔ تھکن کے باوجود کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا، ہاں جی تم نے کیا بننا ہے، ہاں جی آپ کیا بنو گے، ہاں جی آپ کا کیا ارادہ ہے، کیا منزل ہے؟ سب طلبا کے ملتے جلتے جواب۔ ڈاکٹر، انجینئر، پولیس، فوجی، بزنس مین۔ لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب۔ جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا۔ لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی۔ عینک لگائے بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کا تسلسل توڑا، ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے، آپ بھی بتا دو۔ کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔ بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا۔ میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے۔ اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گئی ہو، روح میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا۔ ادھر اس کا جواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گئی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کو اپنایا ہو ۔ بیٹا آپ ڈاکٹر، فوجی یا انجینئر کیوں نہیں بنو گے؟ سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا دیدار ہو گا جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی۔ اس کی باتیں سن کر میرا جسم پسینے میں شرابور ہو گیا، ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ آج مائوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دئیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دئیے ہیں میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا؟ یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگیؒ قوم کو دیجیے۔ ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔ اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے۔ آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آرہا تھا اور آج پھر چند لمحوں پہلے انہیں آیا جس میں سرکار دو عالمﷺ نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں۔ اب سلطان کو قرار کہاں تھا، انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ 20سے 25دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کئے یہ راستہ 17 دن میں طے کیا۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کروائے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا۔ اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپ کو وہ چہرے نظر نہ آئے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں۔ جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسولﷺ کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں۔ تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں۔ سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے ان کے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور کچھ ضرورت کی اشیاء کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا ہوا محسوس ہوا۔ آپ نے چٹائی ہٹا کر دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی۔ آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا۔ وہ سرنگ میں داخل ہوئے اور واپس آکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک ﷺ کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے، یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوڈ حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنی قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کئے گئے ہیں۔ سلطان یہ سن کر رونے لگے، اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ ’’میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا‘‘۔ اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جائے سلطان نے معمار بلائے اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آیا۔ سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا۔ بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کرنبی پاک ﷺ کے قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔(اقتباس)
تازہ ترین