• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا اور تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔تاریخ اور پولیٹکل سائنس کا طالبعلم ہونے کے ناطے ہمیشہ ان دو اصولوں پر زور دیتا ہوں۔آج مشرف کے ملک سے جانے کے بعد نہ جانے کیوں مجھے 17سال پرانا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔12اکتوبر 1999کو جب اس وقت کے جی او سی کراچی میجر جنرل افتخارائیر ٹریفک کنٹرول کراچی میں آئے تو انہوں نے جہاز میں کیپٹن عقیل سے بات کی اور انہیں جہاز کراچی ائیرپورٹ پر ہی اتارنے کا حکم دیا۔ابھی جنرل افتخار اور جہاز کے پائلٹ کی گفتگو جاری تھی کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف خود جہاز کے کاک پٹ میں آگئے۔کاک پٹ میں آکر پرویز مشرف نے پائلٹ کو کہا کہ ائیر ٹریفک کنٹرول کو پیغام دیں کہ میں کور کمانڈر کراچی جنرل عثمانی سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ائیرٹریفک کنٹرول سے جہاز کے کاک پٹ کو بتایا گیا کہ جنرل عثمانی یہاں پر نہیں ہیں البتہ جی او سی کراچی میجر جنرل افتخار کنٹرول روم میں ہی موجود ہیں۔جس پر پرویز مشرف نے جی او سی کراچی میجر جنرل افتخار سے بات کی او ر ان سے پوچھا کہ میرے کتوں کے نام بتائو۔جواب درست ملنے پر پرویز مشرف نے جنرل افتخار سے کہا کہ "ابھی جنرل عزیز اور جنرل محمود کو کہوکہ نوازشریف اور ان کے ساتھی کسی بھی صورت ملک سے باہر جانے نہ پائیں"یہ واقعہ مجھے تین روز قبل جمعرات کی صبح مشرف کی ملک سے اچانک روانگی پر یاد آگیا ،جسے وزیراعظم کے حکم پر باہر جانے سے روکا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کی صبح چار بجے پرویز مشرف نے ملک سے باہر جانے کی تیاری مکمل کرلی تھی ۔جبکہ ان خبروںسے کچھ دیر قبل وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ابھی تک وزارت داخلہ کو سپریم کور ٹ کا فیصلہ موصول نہیں ہوا،اس لئے مشرف کا نام تاحال ای سی ایل میں موجود ہے۔رات گئے چلنے والی اس خبر نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔ کیا ای سی ایل میں نام موجود ہونے کے باوجود سابق صدر ملک سے باہر چلے جائیں گے؟رات کے چار بج چکے تھے۔اقتدار کے بااثر ایوانوں میں گہرا سکوت طاری تھا کہ اچانک کسی نمبر سے ایف آئی اے امیگریشن ڈیسک کراچی کو حکم دیا گیا کہ "وزیراعظم صاحب کا سخت حکم ہے کہ مشرف کسی صورت ملک سے باہر جانے نہ پائیں"یہ فقرہ سن کر اس عاجز کو 17سال بعد مشرف کے وہی الفاظ یاد آگئے جو انہوں نے نوازشریف کے بارے میں استعمال کئے تھے ،تاریخ خود کو دہرا رہی تھی مگر اس مرتبہ کردار الٹ ہوچکے تھے۔ہوا کچھ یوں تھا کہ جب رات گئے میڈیا پر مشرف کی اچانک بیرون ملک روانگی کی خبر چلنا شروع ہوئی تو اس وقت تمام فیصلہ ساز اپنی اپنی آرام گاہوں میں جاکر سو چکے تھے۔سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اور سیکرٹری داخلہ سمیت کسی بھی سرکاری افسر نے مناسب نہیں سمجھا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے بغیر رات کے اس پہر کوئی حکم جاری کرے۔ڈی جی ایف آئی اے بار بار سیکرٹری داخلہ سے پوچھ رہے تھے کہ وقت کم رہ گیا ہے اب کیا کرنا چاہئے۔اسی اثناء میں رات گئے انتہائی قریبی شخص نے وزیراعظم کو ان کی خواب گاہ میں جاکر تمام صورتحال سے آگاہ کیا تو وزیراعظم نے حکم جاری کیا کہ چونکہ مشرف کا نام تاحال ای سی ایل میں موجود ہے۔اس لئے پاکستان کے تمام ائیر پورٹس پر حکم جاری کرادیں کہ "مشرف کسی صورت ملک سے باہر جانے نہ پائیں"وزیراعظم کے واضح حکم کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔سیکرٹری داخلہ براہ راست وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد کروارہے تھے۔کسی وزیر یا مشیر سے حکم لینے کی حاجت ختم ہوچکی تھی۔پھر مشرف کی روانگی کا وقت بھی قریب آگیا۔پرواز کی روانگی سے آدھا گھنٹہ قبل جب مشرف کے پروٹوکول کے اہلکار ائیرپورٹ پر تشریف لائے تو انہیں ایف آئی اے سمیت ائیر پورٹ انتظامیہ کی طرف سے واضح بتادیا گیا کہ "وزیراعظم صاحب کا حکم ہے مشرف کسی صورت ملک سے باہر نہیں جاسکتے"کیونکہ ان کا نام ابھی تک ای سی ایل میں موجود ہے۔اس سارے واقعہ میں تاریخ نے 17سال بعد خود کو دہرایا تھا،شاید کسی اور کو تو وزیراعظم کے احکامات کے بعد یہ واقعہ یاد آیا ہو یا نہ ہو مگر پرویز مشرف کو جب ساری صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہوگا توا نہوں نے ایک لمحے کیلئےماضی کے دریچوں میں جھانک کر ضرور دیکھا ہوگا۔
آج ای سی ایل سے نام خارج ہونے کے بعد مشرف پاکستان سے باہر جا چکے ہیں۔وزیراعظم نوازشریف مشرف کے بیرون ملک جانے کے حامی نہیں تھے۔وہ وزیر داخلہ،وزیرخزانہ سمیت تمام قریبی دوستوں کو واضح الفاظ میں انکار کرچکے تھے۔ نوازشریف اس مرتبہ اپنے اقتدار کی قیمت پر بھی مشرف کے سنگین غداری کیس کو اختتام تک پہنچانا چاہتے تھے۔مقتدر حلقوں کے سربراہ کو بھی وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ مشرف کو سنگین غداری کیس ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا،ایک بار سزا کو گلے سے لگائیں پھر وفاقی حکومت سزا معاف کردے گی۔ مگر جب ان کو بہت ہی پیار ے ایک شخص نے جذبات سے کہا کہـ" مشرف راستے کا پتھر ہے ،اس میں الجھنے کے بجائے ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا"۔وزیراعظم نے اسی وقت مشرف کو باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ۔حکومت کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کو انسانی ہمدردی کے تحت علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ علاج کرواکر واپس آئیں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے۔کچھ معاملات کا عینی شاہد ہوں۔وفاقی حکومت کی خواہش تھی کہ مشرف واپسی کی تحریری یقین دہانی کروائیں۔دونوں فریقین میں پل کا کردار ادا کرنے والوں نے بہت کوششیں کیں مگر مشرف نے تحریری ضمانت دینے سے صاف انکار کردیا ۔جس پر وفاقی حکومت کو ان کی زبانی یقین دہانی پر ہی یقین کرنا پڑا۔
ایک بات تو طے ہے کہ مشرف حکمران جماعت کے لئے واقعی راستے کا پتھر تھا۔نواز حکومت کے لئے ماضی میں پیدا کی جانے والی مشکلات میں مشرف اور ان کے "دوستوں"کا کلیدی کردار رہا۔قسمت نوازشریف پر ہمیشہ مہربان رہی اور تمام چالیں ناکام ہوتی چلی گئیں۔آج سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی تو اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ سنگین غداری کیس کے واحد ملزم کا نام کسی صورت ای سی ایل سے نہ نکالا جائے مگر دوسری جانب حکمت کا تقاضا تھا کہ اس معاملے سے جان چھڑوانے میں ہی جمہوری حکومت کی بہتری ہے۔ پاکستان میں ابھی تک جمہوریت اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ بااثر اداروں کا دباؤ برداشت کرسکے۔آج کروڑوں پاکستانی جو سویلین حکمرانی کے داعی ہیں،انتہائی مایوس ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا کمزور پودا کب تناور درخت بنے گا۔سوشل میڈیا سمیت ملک بھر میں زبان زد عام ہے کہ مشرف آج بھی قانون سے بالاتر ہیں۔ملک کا منتخب وزیراعظم چاہتے ہوئے بھی مشرف کا غداری کیس میں ٹرائل مکمل نہیں کروا سکا۔ بہرحال دانشمندی کا فیصلہ یہی تھا کہ عوام کے بنیادی مسائل پرتوجہ دی جائے۔مشرف اوران جیسے تمام آئین شکنوں کا تب تک احتسا ب نہیں ہوسکتا ،جب تک سویلین حکومت عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوجائے۔جب تک پاکستان کا جی ڈی پی 10فیصد تک نہیں پہنچے گا آپ ترک ماڈل کو مشعل راہ نہیں بناسکتے۔جس ملک میں عوام آج تک صاف پانی ،سستی روٹی ، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی تگ و دو میں تڑپ رہے ہوں ،وہاں پر بھلا کیسے آمروں کا احتساب ممکن ہے۔
تازہ ترین