• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اُسامہ

’’ریحان! تم نے تو آج کمال کردیا‘‘فہیم نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔’’تینوں کا برابر حصہ ہوگا نہ؟‘‘ زبیرنےپوچھا’’ارےواہ!!‘‘ ریحان نے آنکھیں نکال کر کہا۔ ’’کیوں برابر برابر ہوگا؟استاد صاحب کا بٹوہ میں نے اکیلے چرایا ہے، اس لیے اس پر پورا حق میرا ہے، البتہ تم دونوں چوں کہ میرے دوست ہو اس لیے تم کو سو سو روپے دے دوں گا‘‘۔ یہ تینوں اپنی کلاس کے سب سے شرارتی اور چور بچے تھے، آج ریحان نے موقع پاکر چپکے سے اپنے استاد صاحب کا بٹوہ چرالیا تھا۔استاد صاحب بہت زیادہ پریشان تھے ۔ پریشانی یہ تھی کہ کلاس میں کوئی چور ہے اور تالاب کی ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے۔خیر…استاد صاحب نے بجھے بجھے انداز میں کلاس کے طلبا سے کہا کہ کل سب ’’قلم‘‘ پر مضمون لکھ کر لانا ، جس کا مضمون سب سے اچھا ہوگا اس کو انعام ملے گا‘‘۔ ’’کیا تم مضمون لکھو گے؟ریحان!

’’یار…! استاد صاحب نے انعام دینے کا کہا ہے ، لکھنا تو پڑے گا ہی…‘‘’’مگر یہ تو طے ہے کہ وہ انعام فیصل کو ہی ملے گا، کیوں کہ پڑھنے میں سب سے اچھا وہی ہے۔’’اونہہ!…‘‘ریحان نےمنہ بناکر کہا ’’اگر اس کو انعام ملابھی تو پانچ یا دس روپے ملیں گے، کیوں کہ استاد صاحب کا بٹوہ تو میرے پاس ہے نا‘‘اس بات پر تینوں قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔دوسرے دن استاد صاحب نے کلاس میں داخل ہوکر سب کو سلام کیا۔’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ…‘‘تمام بچوں نے بآواز ِ بلند جواب دیا۔سوائےان تینوں ساتھیوں کے۔’’ہاں، بھئی…! ایک ایک کرکے اپنا اپنا مضمون سنائیں، دیکھتے ہیں کس نے کیسا مضمو ن لکھا ہے۔‘‘یہ کہہ کر استاد صاحب نے ایک ایک سے مضمون سننا شروع ہوگئے…ریحان کی باری آئی تو اس نے اپنا مضمون سنایا کہ’’قلم مختلف قیمتوں کے ہوتے ہیں ، بعض بہت مہنگے ، بعض بہت سستے ، جو مہنگے ہوتے ہیں وہ چوری ہوجاتے ہیں ، جو سستے ہوتے ہیں وہ مختلف لوگ مختلف انداز سے استعمال کرتے ہیں ، درزی کان پر رکھتے ہیں، بچے ان سے دودھ میں چینی گھولتے ہیں اور امی ان سے شلواروں میں ناڑے ڈالتی ہیں،‘‘اس کا یہ الٹا سیدھا مضمون سن کر پوری جماعت ہنسنے لگی۔استاد صاحب کا مارے غصے کے برا حال تھا،استاد صاحب نے چیخ کر کہا: ’’چپ ہوجائو…!یہ کیا بکواس لکھ کر لائے ہو؟

’’تم نے کلاس کو مذاق سمجھا ہوا ہے… میں نے مضمو ن لکھنےکو کہا تھا ۔’’چلو فیصل! تم اپنا مضمون سنائو‘‘۔

فیصل کا مضمون سب توجہ سے سن رہے تھے، اس نے بہت ہی پیارا ،دل چسپ اور علمیت سے بھرپور طویل مضمون بنایا تھا، پھر آخر میں کہا’’اب میں اپنے اس مضمون کا اختتام علامہ اقبال کے ایک شعر پر کرتا ہوں:

؎ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

’’سبحٰن اللّٰہ… سبحٰن اللّٰہ…‘‘ استاد صاحب سمیت سب بے اختیابول پڑے، پھر استاد صاحب نے کہا ’’دیکھو یہ ہوتا ہے مضمون! بھئی! واہ…ماشاء اللّٰہ…بہت خوب!!‘‘ استاد صاحب نے خوبتعریف کی ، پھر باقی طلبا سے مضمون سننے لگے۔

ریحان اندر ہی اندر کڑھنے لگا اور اپنے برابر میں بیٹھے فیصل کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھنے لگا۔’’ کیا اس کو انعام ملنا چاہیے… نہیںہر گز نہیں مگر …مگر …میں کیا کروں …کو ن سی ایسی ترکیب استعمال کروں کہااسے انعام نہ ملے،… کیا کروں؟…کیا کروں؟…

سوچتے سوچتے اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی… اس نے سوچا کہ… اگر استاد صاحب کے بٹوے کی چوری کا الزام فیصل پر آجائے تو اسے انعام تو دور کی بات… استاد صاحب کے بٹوے میں سے جو چار ہزار مجھے ملے ہیں وہ بھی اسی کو بھرنے پڑیں گے۔ یہ سوچتے ہی اس نے جلدی سے اپنی کاپی کھول کر اس کے ایک صفحے پر لکھنا شروع کیا, ’’استاد صاحب…! میں بہت شرمندہ ہوں…مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے میں نے آپ کا بٹوہ چرالیا تھا، اس میں سے چار ہزار روپے نکلے ، جو کہ میں استعمال کرچکا ہوں ، مگر ان شاء اللہ جلد ہی لوٹا دوں گا…فقط فیصل‘۔ یہ لکھ کر اس نے تیزی سے صفحہ پھاڑا اورفیصل کی مضمون والی کاپی کے اندر چپکے سے رکھ دیا،اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، مارے خوشی کے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ استاد صاحب نے کہا, ’’فیصل…! اپنی کاپی میری ٹیبل پر رکھ دو… تمھارا مضمون اس دفعہ بھی سب سے اچھاہے‘۔ اس نےمیز پرکاپی رکھ دی۔ ’’مبارک ہو ، بھئی فیصل…! تمھیں انعام ملنے والا ہے‘‘۔ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا،فیصل جواباً مسکرایا تو سہی ، مگر حیران بھی ہوا ، کیوں کہ مبارک باد تو دور کی بات ، وہ تو اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیتا تھا۔ اچانک ر یحان نے دیکھا کہ استاد صاحب فیصل کی کاپی میں اس کے رکھے ہوئے کاغذ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بڑے غور سے اس کو پڑھ رہے ہیں۔اس کا دل خوشی سے دھک دھک کرنے لگا۔ استاد صاحب آہستہ آہستہ فیصل کے پاس گئے اور اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مارکر کہا، ’’تم…تم چور نکلے…تم نے میرےاعتماد کوٹھیس پہنچائی اور پھر ایک اور تھپڑ مارا۔ریحان خیالی پلائو بنا کر خوش ہو رہا تھا کہ استاد صاحب اچانک آواز گونجی ’’ریحان…!!ادھر آئو…‘‘وہ حیران پریشان استاد صاحب کی طرف جانے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیا؟ بجائے فیصل کو بلانے کے مجھے کیوں بلارہے ہیں؟ ’’کہاںہے میرا بٹوہ؟‘‘ استاد صاحب نے شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ساری کلاس حیرت سےاسے دیکھ رہی تھی۔ریحان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے، کہنے لگا: ’’کو ن سا بٹوہ…؟‘‘اس کے دائیں کان میں سیٹی سی بجنے لگی… کیوں کہ اسے استاد صاحب کا تھپڑ اتنے زور سے پڑا تھا کہ پوری کلاس گونج اٹھی تھی۔ اور پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب استادصاحب نے اسے وہ کاغذ دکھایا ۔

اس نے دیکھا اس پر ایک طرف توفیصل کی طرف سے چوری کا اقرار تھا، جو اس کو پھنسانے کے لیے لکھا تھا، مگر دوسری جانب اس کا اپنالکھا ہوا قلم والا مضمون تھا جسے وہ پوری کلاس کو سنا چکا تھا۔ اب اسے احساس ہوا کہ اس سے کتنی زبردست غلطی ہوئی ہے، بے چارا اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود ہی گر پڑا تھا… اسے بٹوے کی چوری کی سزا بھی ملی اور جو رقم وہ کھا چکا تھا وہ بھی اس کے ابو دینی پڑی۔

  ​پیارے بچو! یاد رکھیں جو دوسروں کے لیے برا چاہتے ہیں ، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

تازہ ترین