• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سگار کو ہونٹوں میں دبا کر لائٹر سے جلایا،اپنی نشست پر نیم دراز ہوئے، سامنے دیوار پر آویزاں ایل ای ڈی پر عدالت عظمی کی طرف سے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کوبرقرار رکھنے کی بڑی خبر کو استہزائیہ انداز سے دیکھا۔ اسی دوران میں اپنے پوچھے گئے سوال پر سماں خراشی کا مرتکب ہوا تو انہوں نے اپنی نشست کا رخ میری طرف گھمایا اور صرف ایک جملے میں زمینی حقائق کو ننگا کر دیا۔ انتہائی سرد لہجے میں ادا کیے گئے الفاظ کچھ یوں تھے؛ آئین کا یہ آرٹیکل آج دفن ہوگیا کہ قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے،مقدس گائے کا تصور آج بھی ناقابل تردید سچائی ہے؛۔الفاظ کی کڑواہٹ کو سگار کے دھوئیں کے ساتھ اپنے اندر جذب کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے بھی عہد لیا کہ میں اس گفتگو کو ٹیلی کاسٹ نہیں کروں گا تاہم میرے اصرار پر انہوں نے اس گفتگو کے بعض حصوں کو کالم میں بطور حوالہ شامل کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی تھے جنہوں نے مزید تشریح کرتے ہوئے باور کرایا کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی سے نہ صرف پاکستان کا سیاسی اور جمہوری نظام مزید کمزوری سے دوچار ہو گا بلکہ تاریخ ساز اٹھارویں ترمیم کی منظوری سے احساس محرومی کے شکار جن عناصر کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا تھا وہ ایک بار پھر طاقت کا مرکز کہیں اور تلاش کرتے ہوئے وفاق سے دور ہو جائیں گے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ میں پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے اقدام نے میاں رضا ربانی کے بطور قائمقام صدر چند دن قبل ادا کئےگئے ان الفاظ پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی کہ کچھ قوانین صرف اشرافیہ کیلئے ہیں اسی لئے آئین شکنی میں ملوث لوگ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو رہے حالانکہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق چند دن قبل منعقد ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک سچ بولا تھا کہ پاکستان میں قانون کی پانچ کیٹیگریز ہیں۔ ان کے تحت کچھ قوانین صرف اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی حکمران اشرافیہ کیلئے ہیں جو آئین کے آرٹیکل سکس کی خلاف ورزی کے باوجود عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔کچھ قوانین سویلین حکمران اشرافیہ کیلئے ہیں ،کچھ قوانین سویلین حکمرانوں کے معاونت کاروں کیلئے ہیں۔کچھ قوانین امیروں اور طاقت وروں کیلئے ہیں اور کچھ عام افراد کیلئے ہیں۔ حقائق سے آنکھیں چرانے والے حکمران چیئر مین سینیٹ کی طرح قوم سےسچ کیوں نہیں بول دیتے ،کیوں اپنی بے بسی کوچھپانے کیلئے تاویلیں گھڑی جا رہی ہیں،کیوں اپنے بے اختیار ہونے پر پردہ ڈالنے کیلئے عدالتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جارہی ہے، کیوں اپنی مجبوری کو عیاں ہونے سے بچانے کیلئے عذر تراشے جا رہے ہیں،کیوں اپنی انا کی جھوٹی تسکین کیلئے سویلین بالا دستی کا راگ الاپا جا رہا ہے،کیوں اپنے با اختیار ہونے کا تاثر دینے کیلئے اپنے پیچھے موجود سایوں کے وجود سے نفی کی جا رہی ہے اور کیوں صرف اپنے اقتدار اور اپنی حکومت کو بچانے کیلئے نظریہ ضرورت کا سہار الینے کے اعتراف سے انکاری ہوا جا رہا ہے۔مان لیں کہ آپ سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے،تسلیم کر لیں کہ جس کا نام آپ نے جمہوریت رکھا ہے ابھی اس میں اتنا دم خم نہیں آیا کہ وہ کسی کا ہاتھ روک سکے۔اعتراف کر لیں کہ آئین آج بھی محض کاغذ کاایک ٹکڑا ہے۔اس حقیقت سے آنکھیں چار کر لیں کہ آپ کی آزادی اور اختیار وہیں تک محدود ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ اس زعم سے نکل آئیں کہ عوامی مینڈیٹ کے بل بوتے پر آپ تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔ آپ کو تو تب ہی سمجھ جانا چاہئے تھا جب سینیٹ سے متفقہ قرارداد کی منظوری کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی شروع کرنے میں بے بسی کا اظہار کردیا تھا۔ اس وقت سابق صدر آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابرکے سینیٹ میں ادا کردہ الفاظ پر ہی غور کر لیتے کہ پرویز مشرف کا یہ زعم حقیقت پرمبنی ہے کہ ان کا تعلق سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ہے اس لئے انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ،سویلین حکومتیں کمزور ہیں ،ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ آئین شکنی پر سابق سپریم کمانڈر کے خلاف کارروائی شروع کرنے سے پہلے ایوان صدر کے ہال میں آویزاں پرویز مشرف کی اس تصویر پر ہی نظر ڈال لی ہوتی جسے سینیٹ سے متفقہ قرارداد کی منظوری کے باوجود آج تک نہیں ہٹایا جا سکا۔ پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی طرف سے آئین شکنی کی کارروائی 1999 ءسے شروع کرنے کی نصیحت میں پنہاں فصیحت پر ہی کان دھر لئے جاتے۔ پرویز مشرف کے ساتھیوں کو اپنی کابینہ میں شامل کر کے تین نومبر 2007ءسے کارروائی شروع کرنے پر ظاہر ہونے والے رد عمل کو ہی کافی جان لیا جاتا۔ بھاری مینڈیٹ لیکر آپے سے باہر ہونے والوں کو تو اسی وقت حقائق کا ادراک ہو جانا چاہئے تھا جب پہلی بار اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت منسوخ ہونے پر پرویز مشرف گرفتاری دینے کی بجائے فرار ہو گئے تھے اور ریاستی اداروں نے انہیں اپنی حفاظت اور بھرپور پروٹوکول میں چک شہزاد میں واقع ان کی رہائش گاہ تک پہنچا دیا تھا۔ سمجھداروں کیلئے تو یہی اشارہ کافی ہونا چاہئے تھا ۔ اپنی بے بسی کا یقین اسی وقت ہی کر لینا چاہئے تھا جب عدالتوں کے باربار طلب کرنے کے باوجود تین ماہ تک ملزم کو عسکری طبی ادارے سے نہیں نکالا جا سکا تھا۔ ای سی ایل سے نام نکال کراپنی ساکھ اور بھرم تب ہی بچا لیا جاتا جب کچھ ضمانتوں کے بعد پرویز مشرف کو خصوصی عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا۔ اس ایک جملے میں چھپے پیغام کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا جو تربیلا میں خطاب کے دوران دیا گیا کہ اپنے ادارے کے وقار کا ہر صورت تحفظ کیاجائے گا۔ حکومت مخالف دھرنوں کے ذریعے دو تہائی اکثریت کے حامل اقتدار کے سنگھاسن کا لرزنا ہی تنبیہ جان لیا جاتا۔ عدالتوں میں صبح طلبی پر فراہم کئے جانے والے میڈیکل سرٹیفکیٹس اور شام کو پارٹی رہنمائوں سے خطاب کے محرکات پر ہی غور کر لیا ہوتا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بغیر پیش ہوئے باعزت بری ہونے کی انوکھی مثال پر ہی سوچ بچارکر لیا جاتا۔ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملزم تک رسائی نہ ہونے کے سچ میں ہی رسوائی تلاش کر لی جاتی۔ کسی مرحلے پر بھی سچ کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہو سکی تھی تو اپنے عہدے کے ساتھ جڑے ہوئے ان اختیارات پر ہی ایک نظر ڈال لی ہوتی جو آئین شکنی کے ملزم کے خلاف کارروائی کے چکر میں سکڑتے چلے گئے۔ آفرین ہے حکمرانوں پرکہ شکست خوردہ لہجے میں بھی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پرویز مشرف علاج کے بعد واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں گے۔آپ بھلے جو بھی کہیں لیکن علاج کے بہانے بیرون ملک بھجوائے جانے والا آئین شکنی کا ملزم ہرروز کسی نئے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئےمیرے جیسے عوام کو شدت سے یہ احساس دلاتا رہے گا کہ ہمارا تعلق پانچویں کیٹیگری سے ہے اور یہ قوانین ،شوانین ہوتے ہی در حقیقت ان کیلئے ہیں۔
تازہ ترین