کراچی(تجزیہ:مظہر عباس) ایم کیو ایم کے 32ویں یوم تاسیس کے موقع پر جماعت کے قائد الطاف حسین نےجمعے کے روز اپنے تمام ناقدین کو خاموش کرادیا جوکہ ان کی صحت کے متعلق ہر قسم کی چہ مگوئیاں کرتے رہے اور یہاں تک کہ کچھ نے تو انہیں طبی طور پر مردہ بھی قرار دیدیا تھا۔ آئندہ ماہ این اے 245میں ضمنی انتخاب سے قبل ایم کیو ایم کیلئے اس دھچکے سےبنرد آزما ہوناکتنا اہم ہے ، جوکہ حال ہی میں پارٹی کے رہنماؤں کے بے وفائی کے باعث ووٹ بینک کے منقسم ہونے لگا تھا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں ، اور اس سال کو اب بھی بننے یا بگڑنے کا سال قرار دیا جارہا ہے ، لیکن ہزاروں افراد کے پرجوش اجتماع نے اسٹیبلشمنٹ کیلئے اس سوال کے جواب کے ضمن میں کچھ پریشانیاں پید ا کیں کہ ایک ایسا آدمی جسے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را ‘ سے مبینہ تعلقات کے حوالےسے سنگین تحقیقات کا سامنا ہے ، لیکن اب بھی انہیں مہاجر عوا م کی پرزور حمایت حاصل ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں ’را‘ سے فنڈنگ اور ایم کیو ایم کے مبینہ جنگجوؤں کی بھارت سے عسکری تربیت لینے کے حوالےسے تحقیقات مکمل ہوجائینگی۔ لیکن جمعے کوہو نیوا لی تقریب سے پارٹی چھوڑ جانے والے رہنماؤں سے لگنے والے دھچکے اور اس کے ایم کیو ایم ووٹرز پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں سوال کھڑا ہوگیا۔ گزشتہ دو سالوں سے جاری آپریشن کی بابت رینجرز ذرائع کاکہنا ہےکہ انہوں نے اس کے مبینہ عسکری ونگ کی کمر توڑدی ہے اور اب وہ اس ونگ کے اس کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ روابط کی تحقیقات کررہے ہیں ۔ اس لیے مقبولیت ہونے کے باوجو د ایم کیو ایم کو کسی قسم کی راحت ملنے کی توقع نہیں ہے اور آئندہ دنوں اور ہفتوں میں پارٹی کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مثال کے طور پر رینجرز کے ایک سینئر افسر نے بتایاکہ حال ہی میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے پارٹی کے بہت سینئر رہنماایک مذہبی جلوس میں ہونیوالے تباہ کنبم دھماکے کے حوالےسے مفرور ہیں ، اسی طرح پارٹی کے ایک اور رہنما کو ’را‘ کی مالی معاونت سے ہونیوالے قتل کی وارداتوں کے حوالےسے کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ چند وہ چیلنجز ہیں جوکہ ایم کیو ایم کو پاکستان میں درپیش ہیں ۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کو بھی کچھ پریشانیاں لاحق ہیں۔ کراچی ، حیدر آباد اور چند دیگر شہروں میں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر ایم کیو ایم کے کارکنان اور حامیوں کا جمع ہونا بھی ایک درعمل ہے، بالکل اسی طرح جیساکہ گزشتہ برس این اے 246کے ضمنی انتخا ب میں دیکھا گیا تھا۔ بذریعہ ویڈیو لنک طبعی طور پر الطاف حسین کی موجودگی ، جس کے دوران انہیں چہل قدمی کرتے دکھایا گیا اور ان کی صحت بہتر معلوم ہورہی تھی ، اس امر نے ناصرف ناقدین کوعلامتی طور پر خاموش کردیابلکہ یہ ان کے حامیوں کیلئے بھی سکھ کا سانس لینے کا ناعث بنا ، جنہوں نے ’جئے الطاف‘ کے نعروں سے ان کی تعظیم کی۔ ان کا خطاب شکووں، شکایتوں اور درخواست کا مجموعہ تھا، انہوں نے مہاجر عنصر کی بابت قومی مفاہمت کی تجویز دی، ان کی اپیل براہ راست آر می چیف جنرل راحیل شریف سے تھی نہ کہ وزیر اعظم نواز شریف سے۔ انہوں نے ’مہاجر کارڈ‘ استعمال کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں تھےکہ یہ ان کا مضبوط حلقہ ہے،اور انہی کی پارٹی کو آج اسی پارٹی سے منحرف ہونیوالے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی صورت میں ایک حریف کا سامنا ہے۔ دونوں شخصیات23مارچ کو اپنی پارٹی کا نام رکھیں گی۔ جمعے کو ہونیوالا جلسہ این اے 246جیسی کارکردگی کا دھرایا جانالگتا ہے ، لیکن کیا ایم کیوایم 7اپریل کواین اے245میں بھی ویسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کریگی؟ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی طاقت کو غیر حل شدہ مہاجر عنصر کے پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے اور پارٹی کی انتظامی طاقت کو نچلی ترین سطح پر دیکھا جاسکتاہے، جس نے کئی عروج و زوال دیکھے ہیں لیکن اب بھی بڑی یکجا نظر آتی ہے ، حالانکہ پارٹی میںدراڑوں کی علامات خاصی اب بھی واضح ہیں۔ الطاف حسین کے جلسے نے مصطفیٰ کمال اور قائم خانی کے آئندہ ماہ باغ جناح میں ہونیوالے جلسے کے کام کو قدرے مشکل بنادیا ، تاہم دونوں شخصیات بڑے جلسے کے حوا لےسے خاصی پراعتماد ہیں۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے ناقدین نے گزشتہ ماہ ان کی صحت کے متعلق ہر قسم کی قیاس آرائیاں کردی تھیں ، ایسی باتیں کم از کم میڈیا پر نہیں کہی جانی چاہیے تھیں۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہےکہ ایسا نہیں کہ انہیں کوئی طبی مسئلہ نہیں، وہ بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا ہیں، ذیابیطس کے بھی مریض ہیں، گزشتہ برس ذیابیطس کی وجہ سے ہی انکا پیر متاثر ہوا تھا، انہیں ایسے طبی مسائل ضرور ہیں جوکہ 60سال سے زائد عمر کے افراد کو عام طور پر ہوتے ہیں۔ ان کی جلدصحتیابی کا راز ان کی 14سالہ بیٹی افضاء ہے،ایم کیو ایم کے لیے اجنبی بننے سے قبل یہ بات اس نمائندے کو گورنر سندھ عشرت العباد نے بتائی تھی ، اگر کوئی ایک ایسا شخص ہے جس کے سامنے وہ سرتسلیم خم کرلیتے ہیں ، وہ ان کی بیٹی ہے وہ ان کی صحت کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ان کے کھانے کے اوقات بھی طے کرتی ہیں۔ ان کے منظر پر آنے سے ایک ایسی کمان دیکھنے میں آئی جوکہ رہنماؤں کو اپنے حامیوں پر حاصل ہوتی ہے ، باوجود اس کے کہ انکے طرز سیاست پر بدترین تنقید ہوئی ، جبکہ مبینہ عسکریت پسندی اور’ را ‘ سے تعلقات ایسے الزامات ہیں جن پر دوبارہ تحقیقات کی جارہی ہیں ۔ انہوںنے دوران خطاب کہا تھاکہ اگر میں نے 1990میں مہران بینک اسکینڈل میں رقم کی پیشکش مسترد کر دی تو میں ’را‘ سے پیسہ کیوں لوں گا۔ ایم کیو ایم کی 32سالہ سیاست ایک شخص الطاف حسین کے گرد گھومتی ہے ، جس کا نعرہ ہے، منزل نہیں رہنما چاہیے، یا ہم نہیں ہمارے بعد، الطاف ،، الطاف۔ جنہوںنے بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور سالوں اس سے وابستہ رہے ، وہ جانتے ہیںکہ پارٹی ایک ہی رہنما کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے تنظیمی ڈھانچے میں انفرادی شخصیا ت کو بمشکل ہی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ پارٹی کی وفا دا ر یا ں الطاف حسین اور مہاجر شناخت سے وابستہ ہیں ، اسی وجہ سے باوجود اس کے کہ انہوںنے پارٹی کے نام کو مہاجر سے تبدیل کرکے متحدہ کردیا اور لبرل فلسفے کی حمایت کی ، لیکن جمعے کو جو انہوں نے3 مطالبات پیش کیے ،اس میں ان کے حلقے کی عکاسی ہوئی 1) میڈیا پر الطاف حسین کے خطاب اور بیان سے پابندی اٹھائی جائے،2)مردم شماری3) مزید صوبوں یا انتظامی یونٹس کا قیام ،جس میں کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یہ امر مستقبل میں سندھ کے شہری علاقوں میں ہونیوالی سیاست کیلئے بہت اہم ہےکہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح اس صور تحا ل سےنمٹے گی کیونکہ سویلین حکومت ابھی تک کسی سیاسی حل کے ساتھ سامنے نہیں آئی ۔ اس کا جواب یقیناً آسان نہیں ہے ، آیا سوال ایم کیو ایم یا اس کے کچھ رہنماؤں کے’را‘ سے مبینہ تعلقات سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔