• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیٹ کے بڑھتے رحجان کے ساتھ ای کامرس اپنی انتہاؤں کو چھورہا ہے۔ معیاری مصنوعات اور خدمات کی بروقت فراہمی ای کامرس کی کا میابی کا سب سے اہم مرحلہ ہے۔ عالمی مارکیٹ میں ای کامرس کے مستقبل کی بات کی جائے تو یہ کافی روشن ہے، تاہم ایک ہی طرز کی مصنوعات وآلات کی موجودگی میں کسٹمر چوائس مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے لیے مالکان، ہنرمندوں اور خریداروں کے مابین جوائنٹ ورکنگ گروپس بناکر اشیا سازی میں چوائس کو کم نہیں تو انہیں کیٹگرائز ضرور کرنا ہوگا۔


ای کامرس بمقابلہ ریٹیل مارکیٹ

لین دین ہاتھوں ہاتھ ہو یا آن لائن، اب کسٹمر چوائس کسی ایک جگہ یا ملک تک محدود نہیں رہی۔ اب صرف ایسی مصنوعات اور آلات اپنا وجود برقرار رکھ پائیں گے، جو صارف کے دل کو بھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آن لائن شاپنگ پورٹل تیزی سے ریٹیل مارکیٹ کاشیئرحاصل کرتا جارہا ہے۔ اب وقت ہے کہ ریٹیل مارکیٹ کو بھی آرام پسند صارفین کو ہوم ڈیلیوری کی سہولت فراہم کرنی ہوگی۔ پاکستان میں آن لائن شاپنگ اپنی جگہ بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ پیزا خریدنے کے لیے اب گھر سے نکلنا نہیں پڑتا، اسی طرح ٹیکسی یا بائیک بھی ایک کال پر آگئی ہے۔ لہٰذا مینوفیکچرنگ انڈسٹری کواب اپنے آن لائن پورٹلز کے ساتھ فوری ہوم سسٹم بھی بنانا ہوگا، جو ٹاپ آن لائن پورٹلز کی کامیابی کاراز ہے۔

مارکیٹنگ ،ماڈلنگ اور ایڈورٹائزنگ

ای کامرس کی دنیا اپنی پراڈکٹ کے دل کو چھونے والے اشتہارات بناکر صارفین کونہ صرف مائل کرسکتی ہے بلکہ براہ راست رابطہ کرکے مصنوعات کی خوبیاں بیان کرتے ہوئےانھیں قائل بھی کرسکتی ہے۔ ای کامرس کے میدان میں انٹرنیٹ ٹریفک بڑھنے سے مسابقتی دوڑ اعصاب شکن ہوگئی ہے، بالخصوص ایسے ماحول میں کہ جب سبھی دعویٰ کرتے ہوں، ’ہم سے اچھا کون ‘۔ اب لوگ صرف مصنوعات کی تصاویر دیکھ کر متاثر نہیں ہوتے۔ سوشل میڈیا نے عالمی شعور کو بڑھاتے ہوئے صحت مند طرز حیات کی طرف گامزن کیا ہے، اس لیے مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو صارف مارکیٹ میں عملی ثبوت دکھانا ہوگا۔

تعلیم کے پھیلاؤ سے کاروباری دنیا تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ برانڈڈ نام کے ساتھ ای کامرس کو کاروباری تعارف کے نئے زوایے ڈھونڈنے ہوں گے۔ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ ماڈل کو اب بھی چیلنج کاسامنا ہے۔ مستقبل میں کوئی انوکھا طریقہ وضع کرناہوگا، جن میں ایک یاددہانی نوٹس کے بجائے ہر بار نئے انداز اور زاویے سے اپنی مصنوعات کے بارے میں صارفین کو بتانا ہوگا کہ آخر انھیں استعمال کرنا کیوں ضروری ہے۔

ای کامرس کی مشرق میں توسیع

میکنزی کے مطابق2020ء تک دنیا بھر سے متوسط طبقے کے 1.4 افراد ای کامرس میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔ ای کامرس کا تجارتی ماڈل ایشیائی ممالک کی طرف چلا جائے گا۔ پاکستان کے متوسط طبقے نے قبل ازوقت ہی خود کوای کامرس پروٹوکول سے منسلک کرلیا ہے۔ ای کامرس کے میدان میں چین70.7فیصد شیئر کے ساتھ ایشین لیڈر بن چکا ہے۔ چینی نوجوانوں نے ای کامرس کو کاروباری طاقت کا مرکز بنادیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور آن لائن شاپنگ ماڈل، حتیٰ کہ سائبر سیکیورٹی کو یقینی بنانے میں چین خطے کا لیڈر ہے۔ دیگر ممالک میں سنگاپور، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ وغیرہ نے بھی ای کامرس ماڈل کو ترویج دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ای کامرس عالمی نقشے پربراعظم افریقہ

براعظم افریقہ کے بارے میں ترقی یافتہ دنیا کا عمومی رویہ نظر انداز کردینے والا رہا ہے، تاہم آن لائن ایجوکیشن اور ای کامرس نے وہاں تعلیم ومعیشت پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ افریقہ کے پسماندہ کہلائے جانے والے ممالک اب اُبھرکر سامنے آرہے ہیں۔ افریقی ای کامرس مرچنٹس کو فراڈ اور دھوکہ دہی کے ساتھ انٹرنیٹ تک کم رسائی کاسامنا ہے اس کے باوجود ای کامرس سیلز میں تین ممالک نائجیریا، کینیا اور جنوبی افریقہ کی بالادستی ہے۔ افریقہ کے 40 فیصد ای کامرس وینچرزکا صدر دفتر نائیجیریا ہے، وہاں48فیصد عوام کی انٹر نیٹ تک رسائی ہے، جس کے مقابلے میں جنوبی افریقہ کے54فیصد انٹرنیٹ سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس کے مقابل کینیا کے79فیصد عوام کو انٹر نیٹ تک سہولتیں حاصل ہیں۔

سرحدوں سے بالاتر تجارت

ای کامرس کی وسعتیں مشرق ومغرب، شمال وجنوب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں کاروبار کی نفسیات مزید تبدیل ہوچکی ہوگی ۔ ای کامرس میں برانڈز کی ساکھ کامیابی کی ضمانت ہوگی۔ ایمازون، علی بابا، گوگل اور فیس بک کے انٹر نیٹ آف ایوری تھنگ، سپر ہیومن برین ماڈلز اور آن لائن کارپوریشن جیسے منصوبے آنے والے دنوں میں اسمارٹ سٹیز کی صورت اُجاگر ہوں گے۔ دنیا بھر میں کمپنیاں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے روایتی ’سیل‘ کے ساتھ ای کامرس کے ذریعے بھی اپنی مصنوعات اور خدمات فروخت کررہی ہیں اور دنیا بھر سے انھیں پذیرائی مل رہی ہے۔صارفین کی کوشش ہوتی ہے کہ انھیں اچھی کوالٹی مناسب قیمت میں مل جائے، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی دستیاب ہو۔ اس کے علاوہ مستقبل میں ممکنہ طور پر نقدی ختم ہوجائے گی، صرف کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ یا پھر ڈیجیٹل کرنسی چلا کرے گی۔ خریداروں کے لیے پوری دنیا کی اعلیٰ مصنوعات ایک چھت تلے دستیاب ہوں گی۔

تازہ ترین