لندن (پ ر) احمدیہ جماعت کا 53 واں سالانہ کنونشن 4 اگست 2019 کو جماعت کے عالمی سربراہ مرزا مسرورکے متاثر کن خطاب سے اختتام کو پہنچا۔ آلٹن، ہمپشائر میں منعقدہ سالانہ جلسہ میں 115 ممالک کے 39800 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ہزاروں احمدیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر احمدیوں نے بھی جلسہ میں شرکت کی۔پوری تقریب ایم ٹی اے انٹرنیشنل اور آن لائن نشر ہوئی۔ تقریب سے برطانوی وزیر لارڈ طارق نے بھی خطاب کیا۔ سالانہ جلسہ کی خاص بات وفاداری کا عزم تھاجہاں شرکا نے مرزا مسرور کے ہاتھوں اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔شرکا نے اس موقع پر مرزا مسرور کے اطراف ایک انسانی چین بنائی جو کہ اتحاد کے عزم پر مبنی الفاظ دہرا رہے تھے۔ اس تقریب سے قبل مرزا مسرور نے اعلان کیا کہ گزشتہ سال دنیا بھر سے 668500 سے زیادہ افراد نے احمدیہ جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے مزید اعلان کیا کہ احمدیہ جماعت اب 213 ممالک میں منظم ہو گئی ہے۔ اس سال احمدیہ جماعت پہلی بار آرمنیا میں بھی منظم ہو گئی ۔مرزا مسرور نے لوگوں کو ہدایت کہ انہیں دوسروں کی برائی نہیں بلکہ بھلائی کیلئے سوچنا چاہئے، اس طرح آپس میں محبت ، اتحاد اور استحکام بڑھے گا۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج کی مادی دنیا میں جذبات اور بنیادی انسانی ہمدردی کے اظہار میں ناکامی عام ہوگئی ہے۔ اگر کوئی شخص بھوکا رہ جائے تو وہ اس کا خیال نہیں کرتے ، اگر کسی کو مالی مشکلات درپیش ہوں تو وہ اپنی دولت اس کی غربت پر پردہ ڈالنے کیلئے خرچ نہیں کرتے۔ مرزا مسرور نے کہا کہ جو لوگ آج بنیادی انسانی حقوق کے حامی ہیں وہ دراصل والدین اور ان کے بچوں کے درمیان فاصلے بڑھا رہے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کو انتباہ کرتے یا ان کا اخلاق بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض تنظیمیں والدین پر اعتراض کرتے ہوئے ان سے سوال جواب شروع کر دیتی ہیں۔لوگ اس سے مشتعل ہوکر اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج جو لوگ ترقی یافتہ دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں وہ خود اپنی بیویوں کے حقوق پورے نہیں کرتے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بغیر شادی کے تعلقات سے متعلق مسائل بہت بڑھ رہے ہیں اور طلاق کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ سالانہ جلسہ کے دوران مرزا مسرور نے پانچ خطاب کئے اور احمدیہ جماعت کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ ان تین دنوں میں مزید دوسرے لیکچرز اور تقاریر ہوئیں۔ اسی دوران متعدد ایگزی بیشنز بھی ہوئیں۔نمائندہ جنگ کے مطابق برطانوی وزیر لارڈ طارق نے اپنے خطاب میں کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے قدم اٹھائیں تو برطانیہ بھی ان کی مدد کرسکتا ہےتاہم بنیادی طور پر اس مسئلہ کو ان دونوں ممالک نے ہی حل کرنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں خواہ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، اس کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ تنازعات کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران یہ مسئلہ ابھر کر سامنے آیا ہے تاہم اس کو حل کرنے کے لئےدونوں ممالک کو آگے بڑھنا ہوگا۔ لارڈ طارق نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ، اس دورے میں ان کی ملاقات دوسروںکے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور انسانی حقوق کی وزیر ڈائریکٹر شیریں مزاری کے ساتھ بھی ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مثبت کئے ہیں ، وہ سمجھتے کہ اس حوالے سے ابھی موجودہ حکومت کو وقت ملنا چاہئے۔