• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیدِ قُرباں: راہِ خدا میں قربانی اور تسلیم و رضا کا حقیقی مظہر

مولانا سیّد شہنشاہ حسین نقوی

آج عیدالاضحی ہے۔ تمام عالم ِ اسلام کو بہت بہت دِلی تہنیت و مبارکباد کے ساتھ ہی ہم بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہیں۔اللہ ربُّ العزت کا احسانِ عظیم ہے کہ اُس نے ایک بار پھر مسلمانوں کے عزّو شرف کی خاطرنمازِ عید کی عبادت کا یہ موقع نصیب کیا۔حجِ بیت اللہ کے ساتھ عیدِ قرباں کا گہرا ربط ہے ۔یہ مسنون قربانی ہے جو واجب کے قریب تر ہے۔حجاجِ کرام کے لیے واجب اور دیگر مسلمانوں کے لیے سنّتِ موکدہ ہے ۔عید الاضحیٰ درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں قربانی کا پیغام ہے۔بڑی عیدکے یہ تینوں ایّام بہترین درسِ انسانیت،درسِ سعادت ہیں، اگر ہم اِن سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنا چاہیں۔ قربانی اجتماعیت کا عظیم مظہر ہے۔قربانی ویسے بھی اجتماعیت کا پیغام دیتی ہے۔

قربانی کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپ سے گزرنا،کسی اور کی خاطر جینا۔ انسان پیدا ہی اِس لیے کیا گیا ہے کہ وہ کسی اور کی خاطر جیے۔ہم اللہ کی عبادت کی خاطرپیدا کیے گئے ہیں۔ہمیں کچھ کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ہمارے ہر عمل میں قربانی کا پہلو پایا جانا چاہیے۔ ازرُوئے قرآنِ کریم ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی جانب ہماری بازگشت ہے ۔ انسان اللہ کے ہاں سے دنیا میں تین چیزیں لے کر آیا ہے۔رُوح،بدن اور تعلقات۔دوسرے کی خاطر جینے کا جذبہ، دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ دے کر بھیجا گیا ہے۔ ہم خود اپنے لیے نہیں ہیں۔ نماز اللہ سے قربت کے لیے ہے۔حضرت امام علی رضا ؓ فرماتے ہیں:’’نماز ہر متقی کی قربانی ہے ۔‘‘روزانہ اپنے احساسات کا جانور، اپنے وقت کا جانور قربان کرنا ہے۔یہ نماز ہماری ایک قربانی ہے۔لہٰذاپروردگارِعالم نے ہمیں پیدا ہی اِس لیے کیا ہے کہ ہم کسی اور کی خاطر جئیں۔

ایک حدیثِ نبویؐ کے مطابق’’جو لوگوں کے لیے اچھا ہے، وہ سب سے اچھا ہے۔‘‘دوسروں کی خاطر جینا یہ انسانیت کی علامت ہے۔

اللہ کی راہ میں نئے کپڑے دِیے جائیں تو ظاہر ہے زیادہ ثواب ہے،ناکہ پہنے ہوئے کپڑے ،استعمال شدہ کپڑے ۔جن لوگوں کو اللہ نے استطاعت دی ہے وہ دو جانور خریدیں۔ ایک اپنے لیے اور ایک مستحقین کے بچّوں کے لیے۔ نبی کریم سرکارِ دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثردو جانور قربان کیاکرتے تھے۔ایک اپنے اور ایک اپنے اہل بیتؓ کے لیے۔بعض مرتبہ تین جانور کرتے ،اور فرماتے،یہ میری اُمّت کے فقیروں کی جانب سے ہے۔

سورۂ حج میں پیغام دیا گیا ہے کہ’’ اللہ تک اِ ن (جانوروں)کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اِن کا خون،مگر (ہاں)اُس تک تمہاری پرہیز گاری البتہ پہنچے گی ۔‘‘ الحمدللہ قربانی کا جذبہ پاکستان بھرمیں زیادہ ہے۔یہ مسلمانانِ پاکستان کے لیے یقیناً دُعا اور آفرین کا موقع ہے۔

سورۂ صافات اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:’’اور ہم نے اسماعیلؑ کا فدیہ ایک ذبحِ عظیم(بڑی قربانی) کو قرار دیا۔‘‘علّامہ محمد اقبالؒ نے اِسی آیت کے ضمن میں یہ خوب صورت اور لاجواب شعر کہا تھا:

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر

معنیِ ذبحِ عظیم آمد پسر

علّامہ محمد اقبال ؒاِس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اِس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ

عہدِ حاضر میںضروری ہے کہ قربانی کی رُوح کو برقراررکھا جائے اورنمود و نمائش سے حتی الامکان گریز رکھا جائے، بچّے، نوجوان اورجوان قربانی کے جانور کا احترام کریں،اُسے اپنے ساتھ سڑکوں پر مقابلے کی سی کیفیت میں دوڑاتے نہ پھریں،ذبح کرتے وقت صحیح اسلامی احکام کے عین مطابق ذبح کیا جائے،تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔اِس چیز کا خاص خیال رکھنا چاہیے ،نیزقربانی کے گوشت کو زیادہ تر حق داروں میں تقسیم کردیں۔جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں قربانی کا گوشت زیادہ دن تک رکھ کر استعمال کرنا انسانی صحت کے لیے مضرہے۔بقر عید ہمیں حسبِ دستور اور حسبِ معمول درسِ انسانیت اور درسِ سعادت دے رہی ہے،آئیے لبّیک کہتے ہیں اورخلوصِ دل سے ایسے انسان بننے کی سعی کرتے ہیں، جو اللہ رحمن و رحیم اور اُس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو محبوب ہیں۔

تازہ ترین