• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مجھے فخر ہے اپنے پاکستانی ہونے پر، مجھے فخر ہے اس بات پر کہ میں دنیا بھر میں ایک آزاد مسلم ریاست’پاکستان‘ کے شہری کی حیثیت سے جانی جاتی ہوں۔ یہ وطن میری شناخت ، میرا مان اورمیری پہچان ہے۔ یہاں مجھے کسی جابر حکمراں کے کرفیو یا میرے آزاد شہری کے حقوق ختم کیے جانےکا خوف نہیں۔ دشمن سے مقابلہ کرنے کیے لیے افواجِ پاکستان ہر دَم تیار ہیں اور پاک فوج کے جانباز سپاہی سرحدوں پرپہرہ دے رہے ہیں۔ یہ جانباز 72سال سے پاک سرزمین کی حفاظت کے لیےاپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آرہے ہیں لیکن دشمن کو اس کے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب ہونے نہیں دیا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے دیں گے (انشاأللہ)۔  یہی وجہ ہے کہ ہم ارض پاک کی کھلی فضاؤں میں خود مختار حیثیت سے سکون کا سانس لے رہے ہیں‘‘۔

یوم آزادی کے موقع پر ہربار کی طرح اس بار بھی آزاد وطن کی اہمیت اور قدرو منزلت کا احساس مزید شدت سے اُجاگر ہورہا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی جانب سے ملک حاصل کرنے کی تگ ودو، جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف میں سر تسلیم خم ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں ایک خود مختار نظریاتی ریاست ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ حاصل ہوئی ۔

آج سے 72سال قبل، جس طرح ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ایک مسلم ریاست کا وجود لازم وملزوم تھا، اسی طرح ہمارابھی فرض ہے کہ ہم تحریکِ پاکستان کے قائدین اور آباؤ اجدادکے چھوڑے ہوئے ترکے اور پیارے وطن کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ تمام ذمہ داریاں  پوری کریں،جو اس کی تعمیر و تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ یہ صرف میرا اور آپ کا ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا فرض ہے، جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا اور ا س کے حوالے سے پہچان رکھتا ہے۔

14اگست 1947ء کو مسلمانانِ برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت 90سال کی طویل جدوجہد کے بعد خالصتاً آئینی و جمہوری طریقے سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریز و ہندو سامراج سے آزادی حاصل کی ۔ مسلمانوں نے آزاد ریاست اس عہد کے ساتھ حاصل کی تھی کہ یہ مسلم اُمہ کیلئے نظریاتی تجربہ گاہ ہوگی اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہوگی، جہاں تمام مسلمان اپنی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اقدار کے مطابق آزادانہ زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں غیر مسلم بھی اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوںگے۔

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ بطور پاکستانی ہم اس عہد کی پاسداری کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ آج آزادی کے دن تجدید عہدِ وفا کرتے وقت ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ محبت قربانی مانگتی ہے، جذبہ ایثار اور ایمانداری چاہتی ہے تو کیا ہم اپنے ملک سے مخلص ہیں؟ ملک بھر میں صفائی، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر صوبائی اور بلدیاتی اداروں کو قصور وار ٹھہرا کر ہم بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ گھروں سے باہر اور گاڑی میں سفر کے دوران کچرا اور تھیلیاں سڑک پر پھینکتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہی کوڑا کرکٹ ماحول کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں کا کام اپنی جگہ لیکن ہمیں خود بھی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہم ملک بھر میں بڑھتے ٹریفک حادثات کا ذمہ دار قوانین اور سڑکوں کی بدحالی کو قرار دیتے ہیں لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سڑکوں پر تعینات ٹریفک پولیس انہی قوانین کی پاسداری کروانے کے لیے تعینات کی گئی ہے، ہم بس انھیں بُرا بھلا کہتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سگنل توڑ کر یا مخالف سمت میں گاڑی اور بائیک چلاکر فراٹے بھرتے ہوئے نکل جانا اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہ تو ہماری روزمرّہ زندگی کا ایک پہلو ہے، اس جیسے بہت سے دیگر مسائل بھی ہیں جو ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر سرانجام دیتے ہیں اور اس پر کسی قسم کا پچھتاوا تک نہیں ہوتا۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں، اس صورتحال کا تدارک اور روک تھام ہماری فوری توجہ کی متقاضی ہے۔

قوموں کی زندگی میں 72سال کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوتا، جس کی بنیاد پر اس قوم سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کردی جائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ آج وطنِ عزیز کے حالات آئیڈیل نہیں، لیکن یہ سوچتے وقت ان حالات اور واقعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن کا اس عرصے میں اس قوم کو سامنا رہا ہے۔ قوموں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس قوم میں مشکلات سے لڑنے کا جذبہ آج بھی اتنا ہی پختہ ہے، جتنا آزادی کے وقت تھا۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس قوم کو دنیا کی کوئی قوت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ بحیثیت قوم آئیے آج ملک کی 72ویں سالگرہ کے موقع پر ہم سب مل کر خود سے یہ عہد کریں کہ اس دن کو جذبہ حب الوطنی کی تجدید کے حوالے سے منائیں گے اور ملک کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے اپنا اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کریں گے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوگا، ساتھ ہی دوسروں کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ بقول مولاناظفرعلی خان

؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تازہ ترین