• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمی تغیرات اور ان کی شدت میں اضافہ اپنی جگہ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک ان تغیرات و شواید سے زیادہ متاثر کیوں ہوتے ہیں۔ سیلاب ہماری بستیوں، لوگوں اور مویشیوں کو کیوں بہا لے جاتے ہیں، شہروں میں نظام زندگی کیوں مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے؟ جیسا کہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دکھائی دے رہا ہے، عید سے ایک روز قبل چھاجوں پانی برسا جس سے سیلاب کی سی صورتحال پیدا ہو گئی، کئی زیریں علاقے زیر آب آ گئے، گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور مارکیٹوں میں تو پانی داخل ہوا ہی متعدد پوش علاقے بھی متاثر ہوئے حتیٰ کہ شہر کی مصروف ترین سڑکیں بھی تالاب بن گئیں جس سے لوگوں کی نقل و حرکت دشوار ہو گئی ۔ متعدد علاقوں میں لوگ پھنس کر رہ گئے جنہیں پاک فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر سماجی تنظیموں نے ریسکیو کیا۔ اسی دوران عید قرباں کے بعد مختلف علاقوں میں آلائشوں کے ڈھیر لگ گئے اور بدبو کے بھبھوکوں نے شہریوں کو نئی مصیبت میں ڈال دیا۔ بارش کے بعد پیدا ہونے والے کیچڑ نے نشیبی علاقوں کی حالت کو مزید بدتر کر دیا موسمی تغیر و تبدل کے بعد مصائب میں اضافے کی بنیادی وجہ ان سے نبرد آزما ہونے کی کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ملک کے بڑے شہر جتنے قدیم ہیں، ان کا انفرااسٹرکچر بھی زیادہ تر اتنا ہی پرانا اور فرسودہ ہے۔ خاص طور پر نکاسی آب کے حوالے سے کسی شہر میں کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ دہائیوں پرانا سیوریج سسٹم اس قابل ہی نہیں کہ زیادہ دبائو برداشت کر سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا اقتصادی دارالحکومت پانی میں ڈوبا، کیچڑ میں لتھڑا اور آلائشوں سے اٹا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ خطے میں موسمی حالات شدید تر ہوں گے تو ہمیں ان سے بچائو کی سبیل کرنا ہو گی تاکہ ہم بتدریج اس قابل ہو جائیں کہ موسمی تغیرات سے ہمیں جانی و مالی نقصان نہ ہونے پائے۔ سردست سندھ حکومت فوری طور پر اپنے اداروں کو متحرک کرے اور اپنے تمام وسائل بروئے کار لا کر شہریوں کو ریلیف فراہم کرے۔

تازہ ترین