• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہزاروں سال پرانا قصہ نہیں، تاریخ کا سچا واقعہ ہے۔ آج سے پورے 393سال پہلے یعنی اپریل 1626میں دریائے جہلم کے کنارے بادشاہ مغل سلطنت کے بااختیار حکمران جہانگیر کو قید کر لیا گیا۔ قید کرنے والا کوئی دشمن نہیں بلکہ اپنا ہی ناراض جرنیل مہابت خان تھا۔

مغل بادشاہ پر’’جہانگیر‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں انگریز سفیر تھامس رو کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس خوفناک، خطرناک اور مغل تاریخ کے سب سے عجیب واقعہ کی وجہ ایک سازشی گروہ تھا جو بادشاہ کے نام پر اپنی مرضی کے جانشینوں کو برسرِ اقتدار لانے کا خواہشمند تھا۔ اس گروہ میں ملکہ نور جہاں، اس کا بھائی آصف خان اور اس کا والد اعتماد الدولہ شامل تھا۔ انہوں نے بادشاہ کے گرد گھیرا بنا لیا تھا اور چاہتے تھے کہ نور جہاں کی بیٹی لاڈلی بیگم کے شوہر شہزادہ شہریار کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ نوعمر اور ناپختہ شہزادہ اس گروہ کے ہاتھ میں رہے، حکومت سازشی گروہ کرے مگر نام شہریار کا ہو۔ سازشیوں نے جب بھی کسی کے نام سے حکومت کرنے یا بنانے کی کوشش کی، تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکا۔ شہریار کے علاوہ تخت کے دعویداروں میں شہزادہ پرویز اور شہزادہ خرم شاہجہان بھی شامل تھے۔ سب گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کس کا دائو چلتا ہے۔ مصنفہ پار وتی شرما نے’’جہانگیر‘‘ میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے جب نور جہاں سے شادی کی تو وہ خود 42سال کا تھا جبکہ نور جہاں 34سال کی جہاندیدہ خاتون تھی۔ ملکہ نے نہ صرف جہانگیر کا اعتماد حاصل کر لیا بلکہ اپنے ابا اعتماد الدولہ اور اپنے بھائی آصف خان کو بھی بادشاہ کے معتمد ترین لوگوں میں شامل کر لیا۔ تزک جہانگیری میں بادشاہ نے لکھا ہے کہ وہ اپنے ابا اکبر کی طرح ہی نور جہاں کے ابا کی عزت کرتا تھا اور نور جہاں کے ابا کے مشوروں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ آصف خان تھا نور جہاں کا بھائی مگر وہ بادشاہ اور مملکت کے تمام امور کا انچارج بن بیٹھا، پرنسپل سیکرٹری کی طرح ریاست کے امور اس نے چلانا شروع کر دئیے۔ اس گروہ کی ریشہ دوانیاں اس قدر بڑھیں کہ شہزادہ پرویز کی فتوحات کے باوجود اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا گیا بلکہ اس کے ساتھی جرنیل مہابت خان کو حکم دیا گیا کہ وہ پرویز کو اکیلا چھوڑ کر وہاں سے بنگال چلا جائے۔ اسی آصف خان نے مزید حکم دیا کہ وہ تمام ہاتھی اور قیمتی پتھر بادشاہ کو بھجوا دے، مہابت خان جہانگیر کا وفادار تھا مگر سازشی گروہ کی سازشوں سے تنگ آکر اس نے راجپوتوں کے ایک دستے کے ساتھ پنجاب کی طرف کوچ کیا۔

آصف خان نور جہاں کے داماد شہزادہ شہریار یا پھر اپنے داماد خرم شاہجہان کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا۔ جہانگیر بیمار تھا، اقتدار ملکہ نور جہاں کے ہاتھ میں تھا، وہی مشورے دیتی تھی اسکیمیں تیار کرتی تھی، قلوپطرہ کی طرح نت نئی پارٹیاں کرتی تھی، بادشاہ کو تفریح میں الجھائے رکھتی تھی۔ کشمیر جاتے ہوئے شاہی قافلہ جہلم کے کنارے رکا تو آصف خان بادشاہ اور ملکہ بہن کو چھوڑ کر آگے کوچ کرگیا۔ صرف ایک محافظ دستہ اور معتمد خان پیچھے چھوڑ دئیے گئے، بس یہی وہ لمحہ تھا جس کا مہابت خان کو انتظار تھا، اس نے اچانک بادشاہ کے کیمپ پر چھاپہ مار کر بادشاہ کو اپنی حفاظت میں لے لیا اس سے چوک یہ ہوئی کہ ملکہ نور جہاں کو نہ ڈھونڈ سکا۔ بہرحال وہ بادشاہ کو دریا پار لے گیا، دوسری صبح نور جہاں چھپ چھپا کر اپنے بھائی آصف خان کی پناہ میں پہنچ گئی۔ بھائی اور بہن نے بادشاہ کو چھڑانے کے لئے تیاری شروع کردی خود ملکہ بھی ہاتھی پر سوار ہو کر حملے میں شریک ہوئی۔ مہابت خان نے بادشاہ کو چھوڑ دیا مگر اس شرط پر کہ اسے بحفاظت نکلنے دیا جائے۔ اسی دوران مہابت خان کا سرپرست شہزادہ پرویز وفات پاگیا۔ مہابت خان نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے شہزادہ شاہجہان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے دستے میں جا شامل ہوا۔

کہانی کا اگلا باب یہ کہتا ہے کہ اعتماد الدولہ یعنی نور جہاں کا والد عالمِ فانی سے رخصت ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد جہانگیر بھی وفات پاگیا، اب سازشی گروہ آصف خان اور نور جہاں کے مشترکہ امیدوار شہریار کو تاج پہنا دیا گیا مگر آصف خان نے اپنے داماد شاہجہان کو خفیہ پیغام بھجوایا کہ دارالسلطنت آگرہ پر قبضہ کر لو، خزانہ تمہارا ہوا تو اقتدار تمہیں مل جائے گا۔ شاہجہان نے ایسا ہی کیا، شہریار مارا گیا، نور جہاں کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آصف خان کو کبھی دوبارہ عروج نہ مل سکا، نور جہاں جہانگیر کی درگاہ کی مجاورن بن گئی، اس کا شاندار مقبرہ بنوایا اور خود اپنے لئے اندھیری قبر کا انتخاب کیا۔ شاہدرہ میں مقبرہ جہانگیر اور نور جہاں کے سامنے آج بھی ایک اور نامکمل مقبرہ دیدہ عبرت نگاہ ہے۔ یہ مقبرہ آصف خان کا ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ سازشی بالآخر اِس دنیا اور اُس دنیا دونوں میں ہی ناکام ہوتے ہیں۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ آج کااقتدار، طاقت اور سازش کے کھیل آج بھی جاری ہیں۔ اشفاق احمد زندہ ہوتے تو میں ان سے پوچھتا کہ آج کے جہانگیر اور شاہجہان کون ہیں، داماد شہریار کہاں ہے؟ نور جہاں کی نمائندگی کون کررہا ہے اور ابا اعتماد الدولہ کون ہے؟ آصف خان کی طرح نظام کو اپنی مرضی کے مطابق کون چلا رہا ہے۔ کہانی کے کردار سمجھ آجائیں تو کہانی کا پلاٹ اور پھر اس کا انجام سمجھنا مشکل نہیں ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین