• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


دس اگست 1947کا دن تھا، میں متحدہ ہندوستان کے تاریخی شہر لکھنو میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ اس وقت مسلمانوں کو اس بات کا پوری طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا اگلے چند دنوں میں اعلان اس فارمولے کے ساتھ ہونے والا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے نئے مسلم ملک پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل ہونگے، مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اسلام کے تاریخی شہر لکھنو، رائے بریلی، علی گڑھ سمیت درجنوں شہر جہاں پاکستان کی تحریک چلی تھی، جہاں مسلمانوں کا نئے اسلامی ملک کے لئے خون بہا تھا، وہ بھی پاکستان میں شامل ہونگے لیکن نئے اسلامی ملک پاکستان کا نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے بہت سے اکثریتی علاقے ہندو رہنماوں اور انگریزوں کی ملی بھگت کے باعث پاکستان میں شامل ہونے نہیں دئیے گئے ہیں، انگریزوں نے تو حیدرآباد دکن اور پنجاب کا بہت بڑا علاقہ بھی پاکستان میں شامل نہیں ہونے دیا تھا جبکہ سب سے اہم جموں کشمیر کا علاقہ بھی پاکستان سے چھین لیا گیا تھا، پھر اگلے چند دنوں بعد یعنی چودہ اگست کو پاکستان کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ پورے بھارت کے مسلمان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ان کے لئے ایک الگ ملک کا قیام تو عمل میں آیا جہاں مسلمان اپنے مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں گے لیکن اگلے روز یعنی پندرہ اگست کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے۔ مسلمانوں کو علاقہ خالی کر کے پاکستان جانے پر اصرار شروع کردیا گیا بصورت دیگر قتل کرنے اور خواتین کو اغواء کرنے کی دھمکیاں دی جانے لگی تھیں، میرے والد نے خود کئی ہندوئوں کو سرگوشیاں کرتے سنا کہ مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کے بعد کس مسلمان کے مکان پر کس ہندو کا قبضہ ہوگا، مسجد کو شہید کرکے کونسا مندر تعمیر کیا جائے گا، یہ تھی مسلمانوں کے خلاف ان ہندوئوں کی سوچ، ان ہی حالات کو دیکھ کر اکثریت نے فیصلہ کیا کہ ہم لوگوں کو شہر چھوڑ کر پاکستان منتقل ہو جانا چاہئے بصورت دیگر یہاں نہ صرف ہمارے گھروں اور مال کو خطرہ ہے بلکہ زندگی اور عزت بھی محفوظ نہیں رہے گی، چنانچہ سولہ اگست کی رات ضروری سامان کے ساتھ ہمارا قافلہ لکھنو سے ہجرت کرکے پاکستان روانہ ہوا، ہمارے قافلے کے ساتھ صرف نقد رقم، کھانے پینے کا سامان اور جائیداد کے کاغذات کے سوا کچھ بھی نہ تھا، لکھنو سے نکل کر ہماری منزل اس مقام تک پہنچنا تھا جہاں مسلمان قافلے پاکستان جانے کے لئے جمع ہورہے تھے، رات گئے ہمارا خاندان دیگر مسلمان قافلوں میں شامل ہوا۔ پہلی منزل دلی منتخب ہوئی جہاں سے واہگہ بارڈر اور پھر وہاں سے پاکستان جانا تھا۔ ریل گاڑی کے ذریعے پاکستان جانے کا فیصلہ ہوا، اطلاعات ملنا شروع ہوگئیں تھیں کہ ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کردیئے ہیں، لہٰذا فیصلہ ہوا کہ جلد از جلد بھارت چھوڑنا ہوگا، ہمیں بھی مہاجروں کے لئے چلائی جانے والی ٹرین کے ذریعے لکھنو سے دلی کے لئے روانہ کیا گیا، راستے میں بہت زیادہ خطرناک مناظر دیکھنے کو ملے لیکن دہلی سے واہگہ اور پھر واہگہ سے لاہور تک جو مسلمانوں کے ساتھ ہوا وہ شاید قیامت کے کسی منظر سے کم نہ تھا، دلی سے امرتسر جانے کے دوران ہماری ٹرین پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی اس وقت ہماری بوگی میں سوار تمام افراد نے یہی فیصلہ کیا کہ جان دے دیں گے لیکن اپنی عزت پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ چھریاں نکال کر خواتین کے حوالے کر دی گئیں تھیں جبکہ حملہ آوروں سے مقابلے کے لئے مردوں نے بھی اپنے ہتھیار تیار کر رکھے تھے لیکن ڈرائیور کی مہربانی کے وہ حملہ آوروں کے نرغے سے ٹرین نکال کر ہمیں باحفاظت لاہور تک لے آیا، راستے میں ہزاروں مسلمانوں مرد اور خواتین سمیت بچوں کی لعشیں نظر آئیں، ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اور ایک مسلمان ملک میں رہنے جارہے تھے، وہ کسی کو لوٹ کر نہیں بھاگے تھے بلکہ وہ تو اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان جارہے تھے، ہم بھی بہت بری حالت میں بھوک سے نڈھال لاہور پہنچے، نقد رقم ختم ہو چکی تھی، کھانے کو کچھ نہ تھا لیکن والدہ کے زیورات بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ فوری طور پر کچھ زیور بیچ کر والد نے کھانے پینے کا بندوبست کیا، ہم سب چند دنوں کے لئے لاہور کی مہاجر بستی میں قیام پذیر ہوئے لیکن پھر فیصلہ ہوا کہ مہاجروں کی ایک بڑی تعداد قائداعظم کے شہر کراچی روانہ ہورہی ہے جو پاکستان کا دارالحکومت بھی ہے اور بڑا شہر بھی ہے لہٰذا ایک بار پھر ہمارے سفر کا آغاز ہوا۔ اگلے دو دنوں میں ہم کراچی میں موجود تھے جہاں کچھ جان پہچان کے افراد کی مدد سے والد صاحب نے مکان کا بندوبست کیا۔ کچھ عرصہ زندگی اپنے نئے وطن میں نئے سرے سے شروع کی، میرے ساتھ بیٹھے میرے بزرگ دوست اشفاق احمد اپنی ہجرت کی داستان آنسوئوں کے ساتھ مجھے سنارہے تھے، وہ پاکستان کو برا بھلا کہنے پر سخت ناارض ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے حکمراں جیسے بھی ہوں، لیکن ہمارا ملک ہماری ماں ہے، اس کو برا کہنے والے اپنی ماں کو برا کہتے ہیں، ملکوں کو عظیم بننے میں صدیاں لگتی ہیں ابھی تو ہمارے ملک کو بنے صرف سات دہائیاں بیتی ہیں اسے وقت دیں، حکمرانوں سے پہلے خود ٹھیک ہوں، ٹیکس دیں، اپنا گھر اور اپنا محلہ صاف رکھیں، تعلیم حاصل کریں، ترقی کریں، اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں، دوسروں سے توقعات نہ رکھیں اور پھر شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ایک الگ ملک دیا، ایک شناخت دی ہے ہم اپنے ملک کے اول درجے کے شہری ہیں آج چودہ اگست ہے، میری طرف سے تمام پاکستانیوں کوجشن آزادی مبارک ہو، پاکستان پائندہ باد۔

تازہ ترین