غلام مصطفیٰ
’’میں کم و بیش ہندوستان کے ہر حصے کا سفر کر چکا ہوں۔ میں نے وہاں کوئی فقیر، کوئی چور نہیں دیکھا۔ اس ملک میں ایسی دولت، ایسی اعلیٰ اقدار اور ایسے قابل لوگ دیکھے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ہم انہیں کبھی فتح کر سکیں گے۔ جب تک کہ ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی (ان کا روحانی و ثقافتی ورثہ) نہ توڑ دیں۔ چناچہ میں ان کے پرانے نظام تعلیم اور کلچر کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر ہندوستانی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ غیر ملکی نظام اور انگریزی ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی اور کلچر سب بھول جائیں گے۔ اور وہی کچھ بن جائیں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ یونی خالصتاً ایک مغلوب قوم‘‘۔
یہ وہ بیان ہے جو لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمان میں دیا تھا، جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس کی بات بالکل درست تھی، انگریز کے ہندوستان پر قبضے سے قبل ہمارے عظیم الشان تعلیمی نظام کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسا جامع نظام اور کیسی عظیم اقدار و روایات تھیں جنہیں انگریز سامراج نے ختم کر دیا۔
ہمارا آج کا تعلیمی نظام روٹی کمانا تو سکھاتا ہے لیکن زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں سکھاتا، نصاب میں اخلاقیات اور اندگی گزارنے کے طریقوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ اس دور کے تعلیمی اداروں میں فکر اور شعور کی تعلیم نہیں دی جارہی، سب کے ذہن ایک مخصوص سوچ کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ جاری ہے۔ کسی کا مقصد تعلیم حاصل کرنا، قابل بننا نہیں بلکہ نام نہاد ڈگریاں حاصل کرنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ نجی اور سرکاری تعلیمی سیکٹر کے درمیان عدم مساوات کا ہے، گزشتہ چند برسوں کے دوران نجی تعلیمی اداروں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے زیادہ علم نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے رکھتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہاں ایک کمرے میں اتنے طلباء ہوتے ہیں کہ بچے پیچھے بیٹھ نے والے طالب علموں کو استاد نظر ہی نہیں آتے۔ اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے۔ جن میں سے شاذو نادر ہی کوئی باقائدگی سے کلاسیں لیتے ہیں۔ ایک استاد پر بیک وقت سو سے ڈیڑھ سو طلباء کو پڑھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکنیکل تعلیم کی طرف بھی توجہ نہیں دی جاتی، طالب علموں کو اس سے بہت دور رکھا جاتا ہے۔ تعلیمی فنڈز اور بجٹ کم ہیں، اساتذہ کو بنیادی ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ یہ تمام عناصر شرح خواندگی بڑھانے کی راہ میں حائل ہیں۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے، چاہئے امراء کے بچے ہوں، حکمرانوں کے یا غرباء کے سب کو ایک ہی معیار کا نصاب پڑھایا جائے، ہر سطح پر ٹیکنیکل تعلیم کو لاگو کیا جائے، مدارس کے نصاب میں انگریزی اور دیگر سائنسی مضامین کو بھی شامل کیا جائے کیوں کہ، مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے زیادہ تر طلباء کی قرآن و حدیث پر تو گرفت مضبوط ہوتی ہے، لیکن وہ انگریزی اور دیگر علوم کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ زمانے کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ملازمت حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ اس نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی، انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم ضرور ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کے لیے ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ ان کی بھی تربیت ہو، وہ بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور سب سے ضروری بات یہ کہ اس طرح کی پالیسیاں صرف بنائی ہی نہیں جانی چاہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ اگر تعلیمی نظام متوازن ہوجائے تو اس ملک ہر نوجوان کا مستقبل روشن ہوگا اور ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل تیزی سے طے کرے گا۔