• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا نے تسلیم کرلیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ایک بین الاقوامی قضیہ ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ فریقین کو ایسے اقدام سے گریز کا مشورہ بھی دیا گیا جو جنگ کا موجب بن سکتے ہیں مگر بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے یہ کہہ کر ایٹمی جنگ کی طرف پہلا قدم رکھ دیا ہے کہ حالات دیکھ کر فیصلہ ہوگا۔ کب ایٹم بم کا استعمال کرنا ہے۔ کل تک بھارت نے جوہری جنگ میں پہل نہ کرنے کا اعلان ’’بدھا کی مسکراہٹ ‘‘کے سلوگن میں لپیٹ کر انسانی حقوق کی شیلف پر سجا رکھا تھا اور دنیا بھر کے ہندو اِس پر اتراتے پھر رہے تھے۔ تین سال پہلے بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکرنے بھی یہی کہا تھا مگر فوراً وضاحت آگئی تھی یہ وزیر دفاع کا ذاتی بیان ہے، حکومت کی پالیسی نہیں۔ اس بار ابھی تک کوئی تردید نہیں آئی۔ دراصل بھارتی فوج سمجھتی ہے کہ جنگ جیتنے کےلئے ایٹم بم کے استعمال میں پہل کرنا انتہائی ضروری ہے ۔پاک بھارت ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے والوں نے بتا دیا ہے کہ خدانخواستہ یہ جنگ ہوگی تو دنیا کی نوے فیصد آبادی ختم ہوجائے گی۔ معروف ماہر ارضیات سعید بزدار کے مطابق تو زمین کو اپنے مدار سے ہٹانے کےلئے انڈیا اور پاکستان کے پاس موجود ایٹمی توانائی کافی ہے۔ یعنی یہ جنگ اُس روایتی قیامت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس میں پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ میرے کانوں میں مہاتما بدھ کا قہقہہ گونج رہا ہے۔ اللہ خیر کرے ۔ایٹمی تباہ کاریوں کا معمولی مظاہرہ کوئی جاکر ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں دیکھے تو اسے اس بم کی قیامت خیزی کا اندازہ ہو۔ کہتے ہیں ۔’’بم پھٹا تو 250 فٹ تک زمین پگھل گئی، سو میل تک لرزش محسوس ہوئی اور 7.5 میل اونچائی تک بادل چھا گئے۔ ایٹم بم جس جگہ پھٹا وہاں پر درجہ حرارت 6 ہزار ڈگری سلسیس یعنی سورج کی سطح کے درجہ حرارت کے برابر تھا۔‘‘

انسان کو تُو نے کیا بخشا ماضی کی کہانی پوچھتی ہے

بتلائو کہ ہیرو شیما کی برباد جوانی پوچھتی ہے

یہ تو بہت معمولی سا ایٹم بم تھا اس سے کئی گنا زیادہ طاقت والے انڈیا کے پاس ایک سو چالیس اور پاکستان کے پاس ایک سو ساٹھ ایٹم بم ہیں ۔پاکستان کے پاس فٹبال کے سائز میں محدود ایریا کےلئے چھوٹے بم اس کے علاوہ ہیں اور خاصی بڑی تعداد میں ہیں ۔یہ فٹبال ایٹم بم روایتی جنگ میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ایک فٹ بال ایک فوجی چھائونی کو پگھلی ہوئی مٹی کافٹ بال گرائونڈ بنانےکےلئے کافی ہے۔جس میں انگارے دوڑتے پھرتے ہونگے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی۔ اب امریکہ کے پاس اس وقت 6185 ایٹم بم ہیں۔ روس کے پاس 6500 ۔ انگلینڈ کے پاس 200 ، فرانس کے پاس 300 بم چین کے پاس 290 ۔اسرائیل اور شمالی کوریا کے بارے میں شک کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایک سوکے قریب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ۔امریکہ، برطانیہ اور روس نے ایک معاہدے کے تحت ایٹمی ہتھیاروں کو کم کیا مگر بھارت اور پاکستان میں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا اور ہورہا ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ اِس ایٹمی جنگی جنون کا ذمہ دار انڈیا ہے ۔سنسکرت کی پرانی پوتھیوں میں لکھا ہے کہ چین کے ساتھ بھارت کی ایک ہولناک جنگ ہونی ہے ۔شاید امریکیوں کو بھی یہ بات معلوم ہے ۔ امریکا نے چین کے مقابلے میں ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے۔انیس سو باسٹھ میں جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کشمیر کے محاذ پرحملے کی تیاری مکمل کر چکا تھامگر امریکہ نے صدر ایوب کویقین دلایا تھا کہ اگر پاکستان اس جنگ میں غیر جانبدار رہے تو امریکا مسئلہ کشمیرحل کرا دے گا۔اسی طرح کا کوئی وعدہ ان دنوں پھر امریکہ نے عمران خان کے ساتھ بھی کیا ہے ۔ اللہ خیر کرے۔

آج کشمیر سلگ رہا ہے ۔ کشمیریوں کی پُرامن تحریک پھر گوریلا وار کی طرف بڑھ رہی ہے ۔مجھے برہان مظفر وانی شہید کی آواز سنائی دے رہی ہے جو کہہ رہا ہے

یہ کس نے جنگ مری زندگی بنادی ہے

دماغ اسلحہ خانہ بنا دیا ہے مرا

عمل اجل کا دہانہ بنادیا ہے مرا

تمام جلد مری آہنی بنا دی ہے

یہ کس نے جنگ مری زندگی بنادی ہے

نماز گاہ کے اسرار کھولتی انگلی

یہ پانچ وقت شہادت کی بولتی انگلی

مشین گن کی سیہ لبلبی بنادی ہے

یہ کس نے جنگ مری زندگی بنادی ہے

کشمیر کے سرد پہاڑوں میں آتش فشاں کروٹیں لینے لگے ہیں ، جنہیں کرفیو کی باڑیں زیادہ دیر نہیں روک سکتیں ۔گولیوں کی بوچھاڑیں دم توڑنے والی ہیں ۔سلامتی کونسل کی ناکامی پر لداخ کے ایک بڑے حصے میں کسی وقت بھی چینی فوجیں داخل ہو سکتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا گرم محاذ ساری کنٹرول لائن کو آگ دکھا سکتا ہے۔ یعنی کشمیر کے محاذ پر ہونے والی محدود جنگ میں بھارت کی ناکامی سے اُس روایتی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے جس میں کوئی بھی فریق ایٹمی حملے میں پہل کرسکتا ہے۔ وہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ جسے کوئی جیت نہیں سکتا۔ جس کے اختتام پر برصغیر ایسےشمشان گھاٹ میں بدل جائے گا جہاں صرف جلتی ہوئی لاشیں ہونگی انسان نہیں۔

کشمیر میں ہندو ایک ’’ہولو کاسٹ ‘‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں جو کچھ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا ہمیں وہی کچھ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کرنا ہے۔ مجھے برطانیہ میں رہنے والے ایک ہندو پنڈت کا یہ جملہ کبھی نہیں بھولتا ’’ہم ایک ایک کشمیری مار دیں مگر کشمیر کا ایک انچ کسی کو نہیں دیں گے۔‘‘

بھگوت گیتا میں ایک ا شلوک موجود ہے ۔ پتہ نہیں اُس کے ماننے والے اسے کیوں بھول جاتے ہیں۔ ’’میں وہ موت ہوں جو ساری دنیا کو تباہ کر سکتی ہے مجھ میں ہزاروں سورجوں کی گرمی اور قوت بھری ہوئی ہے‘‘۔

تازہ ترین