• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی حکومت کی جانب سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر غصب کرنے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پچاس سال کے تعطل کے بعد کشمیر کے مسئلے کا اس کے باوجود زیر غور آنا کہ بھارت نے اسے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا، سفارتی محاذ پر پاکستان کی ایسی باوقار اور شاندار کامیابی ہے، عالمی مبصرین بالعموم جس کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ اس اجلاس سے واضح ہو گیا ہے کہ بھارتی دعوئوں کے برعکس اقوام متحدہ کے نزدیک کشمیر کا مسئلہ آج بھی ایک عالمی تنازع ہے۔ تازہ ترین تفصیلات کے مطابق سلامتی کونسل میں یہ بات کی گئی کہ کشمیر بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق ہی پُر امن طور پر حل ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے بقول سلامتی کونسل کے اجلاس میں ہونے والی بحث سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی زندہ ہیں؛ تاہم اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر ایس اکبر الدین نے عالمی ادارے میں اپنی حکومت کے موقف کے مکمل طور پر مسترد ہو جانے کے باوجود بھارت کی روایتی ڈھٹائی کی روش پر کار بند رہتے ہوئے اس بے بنیاد دعوے کو دہرایا ہے کہ آرٹیکل 370انڈیا کا اندورنی معاملہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اس کے باوجود اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک کشمیر کے بارے میں اب تک ہونے والے معاہدوں کا پابند ہے اور یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی طور پر حل ہونا چاہئے جبکہ عملی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے نہ شملہ اور لاہور معاہدوں کے تحت مذاکرات کی میز پر آتا ہے، نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے رائے شماری کی سمت کوئی پیش رفت کرتا ہے اور نہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور اسے مستقل طور پر بھارت میں ضم کرکے مودی حکومت نے کشمیریوں سے پوچھنے کی کوئی زحمت کیے بغیر ان کے مستقبل کا فیصلہ خود کردیا ہے جس سے اس معاملے میں اس کی بدنیتی پوری طرح واضح ہوگئی ہے۔ ان حالات میں عالمی برادری کا دباؤ ہی بھارت کو کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ بھارت کے تازہ اقدام نے کشمیر کے معاملے کو ازسر نو عالمی منظرنامے پر پوری قوت سے ابھار دیا اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے جبکہ خود بھارت کے انصاف پسند حلقوں میں بھی مودی حکومت کے اس ناجائز اقدام کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے جس کا مظاہرہ متنازع آئینی ترامیم کو اعلیٰ سابق فوجی افسروں سمیت ممتاز سیاسی و سماجی شخصیات کی طرف سے بھارتی عدالتوں میں چیلنج کیے جانے کی شکل میں ہورہا ہے۔ لہٰذا کشمیریوں کے حق کی خاطر عالمی برادری کو کسی فیصلہ کن اقدام پر آمادہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے اور اس کے لئے سفارتی سطح پر بھرپور جدوجہد وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس تناظر میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اس مقصد کے لئے پاکستانی دفتر خارجہ میں کشمیر سیل اور اہم عالمی مراکز کے پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن میں کشمیر سے متعلق ترجمان بھی مقرر کیے جائیں گے۔ کشمیر اور بھارت کے اندر مودی حکومت کے اقدامات کے خلاف سامنے آنے والے ردعمل نے عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی جدوجہد کے لئے جو سازگار حالات مہیا کردیے ہیں انہیں درست طور پر استعمال کر کے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح کشمیری عوام کو بھی ان کا حق دلایا جا سکتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس جدوجہد کو کامیاب بنانے کی تدابیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ بھارت اس جدوجہد کو ناکام بنانے کے لئے جارحانہ کارروائی سمیت کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے جس کا خدشہ گزشتہ روز فوجی ترجمان کی پریس بریفنگ میں بھی ظاہر کیا گیا ہے،اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قوم کو تیار رکھا جائے اور اختلافات کو ہوا دینے سے گریز کرتے ہوئے قومی اتحاد و یکجہتی کو یقینی بنایا جائے۔

تازہ ترین