افغان دارالحکومت کابل میں گزشتہ روز ہزارہ برادری کی شادی کی تقریب میں دہشت گردی کی انسانیت سوز واردات فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر افغان امن عمل کو متاثر کرنے کی واضح کوشش نظر آتی ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے جبکہ تحریک طالبان نے اس سے قطعی لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ طالبان کا موقف اس بنا پر قابل فہم ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ پاکستان امن عمل کو آگے بڑھانے میں جس قدر اہم کردار ادا کر رہا ہے اس کے پیش نظر اس شبہ کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں کہ افغانستان کے اندر دہشت گردی کی کوئی کارروائی پاکستان کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود افغان میڈیا میں اس مذموم کارروائی میں کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا جبکہ یہ سوچ ہی بنیادی طور پر گمراہ کن ہے لہٰذا پاکستانی دفتر خارجہ نے اس کی مکمل تردید کرتے ہوئے حقیقت کے عین مطابق افغان امن کو پاکستان کی اپنی ضرورت قرار دیا ہے۔ اس معاملے کا نہایت لائقِ توجہ پہلو یہ ہے کہ کابل میں دہشت گردی کی یہ تازہ کارروائی ایک باقاعدہ مہم کا حصہ نظر آتی ہے۔ جمعہ سے اتوار تک کوئٹہ کی نواحی بستی کچلاک کی مسجد میں بم دھماکہ جس میں طالبان سربراہ کے بھائی بھی جاں بحق ہوئے، جنوبی وزیرستان میں لدھا کے مقام پر ایک فوجی گاڑی اور دیر بالا میں ایک مسافر پک اپ کا سڑک کے کنارے نصب بموں کا ہدف بننا دہشت گردی کے ایسے پے درپے واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی منظم قوت ہے جو امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی اور افغانستان و پاکستان کے استحکام کو اپنے مفادات کے منافی تصور کرتی ہے۔ حالات پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ بھارت کی موجودہ تنگ نظر قیادت کے سوا خطے میں کوئی اور قوت ایسی نہیں جو معاملات کو اس زاویے سے دیکھتی ہو۔ اس صورتحال میں عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرے، ایسا نہ کیا گیا تو علاقائی ہی نہیں عالمی امن بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔