وطن عزیز میں گزشتہ کم و بیش بارہ تیرہ برس سے ڈینگی مچھر کی موجودگی نے شہریوں کی زندگیوں کو جن خطرات سے دوچار کر رکھا ہے وہ محتاجِ تعارف نہیں۔ یہ صورتحال اس وقت تک درپیش رہے گی جب تک اس کا ایک بھی کیس موجود ہے۔ پنجاب کے بعد کے پی اور سندھ کے اضلاع میں اب تک ڈینگی کے ہزاروں کیس سامنے آئے ہیں جن میں ہونے والی درجنوں ہلاکتیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ ان دنوں بھی ڈینگی کا سیزن شروع ہو چکا ہے، ایک ہی روز میں راولپنڈی کی پانچ چھ بستیوں میں34 کیس سامنے آنے کی اطلاع ہے۔ گو کہ متعلقہ ادارے متحرک ہو چکے ہیں لیکن انہیں اس مہم میں اپنے ساتھ شہریوں اور سماجی حلقوں کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ گزشتہ دو برس کے دوران خیبر پختونخوا میں ڈینگی مچھر نے ایسا سر اٹھایا کہ صرف2018 میں اس سے 63اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس سے پیدا شدہ صورتحال سے چھٹکارا پانا صوبائی حکومت کے لئے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ مچھر انسان کا دشمن ہے جو پہلے پہل ملیریا کی شکل میں حملہ آور ہوا، یہاں تک کہ گزشتہ صدی میں صرف برصغیر میں لاکھوں افراد اس سے لقمہ اجل بنے۔ آج ویکسی نیشن موجود ہونے سے ملیریا کے خطرات تو بڑی حد تک کم ہو چکے ہیں لیکن ڈینگی سے بچائو کی ابھی تک کوئی دوا سامنے نہیں آئی۔ سر دست اس مچھر کا خاتمہ ناگزیر ہے، اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ شہری گھروں کے اندر اور باہر جہاں تک ممکن ہو مچھر پیدا نہ ہونے دیں، جس کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی کھلی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیں، تعلیمی اور دیگر اداروں کو اپنے دائرہ کار میں اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہر ضلعی و شہری انتظامیہ کو بارشی پانی کی نکاسی اور گڑھے بھرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے اور ماحول کو مچھروں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر وارڈ، ہر گلی میں مچھر مار اسپرے کرایا جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998