• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں حالیہ بارشوں میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے تینتس اموات ہونے اور غفلت برتنے کے الزامات پر نیپرا نے 18 اگست کو کے الیکٹرک کے خلاف بالآخر باضابطہ تحقیقات کا فیصلہ کرہی لیا۔ نیپرا کے ترجمان کے مطابق کراچی میں بارشوں کے دوران حادثات ممکنہ طور پر کے الیکٹرک کی جانب سے نیپرا قوانین کی خلاف ورزی کی نشان دہی کرتے ہیں۔اس سلسلے میں انسانی جانوں کےزیاںپر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ نیپرا کی جانب سے سینیئر افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی15 روز میں رپورٹ مکمل کرکے نیپراکے حکام کو پیش کرے گی۔اس سے قبل نیپرا کے ترجمان نے بتایا تھا کہ بجلی کی ترسیل کی نگرانی کرنے والے ادارے نے کے الیکٹرک کو حالیہ بارشوں میں جاں بہ حق ہونے والے افراد کے ورثا کو مالی امداد دینے کی ہدایت کی ہے۔اس کےعلاوہ نیپرا نے مستقبل میں جانی نقصان سے بچنے کے لیے کے الیکٹرک کو ہر قیمت پر اقدامات کرنے اورغیر معمولی بارشوں کے دوران بجلی کی فراہمی کے پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس سے قبل اکتیس جولائی کو اس وقت کے وزیرِ بلدیات سندھ، سعید غنی نے کراچی بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے قیمتی جانوں کے زیاں پر کے الیکٹرک کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا عندیہ دیاتھا۔کراچی میں بارش کے دوران مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے سے انسانوں کے علاوہ قربانی کے جانور بھی ہلاک ہوئے تھے۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی کا کہنا تھا کہ شہر میں کرنٹ لگنےسے ہونے والی ہلاکتوں پر کے الیکٹرک کےخلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھاکہ جیسے ہی بارش شروع ہوئی کے الیکٹرک کے فیڈرز ٹرپ ہونا شروع ہوگئے، کراچی کے مختلف علاقوں میں 36 گھنٹے بعد بھی بجلی بحال نہیں ہوئی۔

اس کے بعد میئر کراچی میدان میں اترے۔لیکن وسیم اختر کی جانب سےکمپنی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے اعلان پر کے الیکٹرک نے کراچی میں کرنٹ لگنے سے شہریوں کی اموات کا ملبہ بلدیہ عظمیٰ پر ڈال دیا۔ نیپرا کی ٹیم نے بھی اموات کے بعد کراچی کا دورہ کیاتھا اور تحقیقات کے بعد اموات کی ذمے داری کے الیکٹرک پر ڈالتے ہوئے جاں بہ حق افراد کے لواحقین کو معاوضہ دینے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے باوجود بارشوں کے دوسرے مرحلے میں مزید کئی افراد جان سے چلے گئے جس پر شہریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کراچی کو لاوارث قرار دیا۔میئر کراچی وسیم اختر نے شہریوں کے احتجاج کے بعد کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا اور ڈیفنس میں جاں بہ حق ہونے والے تین دوستوں کا مقدمہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ حکام کے خلاف درج کروایا۔مقدمہ درج ہونے کے بعد کے الیکٹرک نے ردعمل میں کرنٹ لگنےکے واقعات کا ملبہ کراچی میٹرو پولٹن کارپوریشن پر ڈالتے ہوئے کہا کہ کے ایم سی نے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا۔ بجلی کی تنصیبات کے گرد جمع پانی حادثات کا باعث بن رہا ہے۔کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بجلی کی بحالی کی کوششوں میں بھی کے ایم سی نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ مئیر کراچی اور کے ایم سی پانی کی نکاسی کے لیے کردار ادا کریں۔

ان حالات میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں کرنٹ لگنے سے بڑی تعداد میں ہونے والی اموات کی تیکنیکی وجوہات جاننے اور ذمے داروں کا تعیّن کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔ان کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے معاملات کا تیکنیکی اور آزادانہ انداز میں جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آزاد و دیانت دار ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو کمپنی کے معاملات کا بغیر کسی دباو اور لالچ کےٹیکنیکل آڈٹ کرے اور تمام معاملات شفاف انداز میں عوام کے سامنے لائے جائیں۔

کے الیکٹرک کی کہانی

کے ای کے بارے میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کراچی کے مقدر میں لکھی گئی ایسی کمپنی کی کہانی ہے جس نے روشنیوں کے شہر کو اندھیروں کے شہر میں بدل دیا ہے۔ کراچی کی بجلی کمپنی 1913ء میں وجود میں آئی تھی جس کی ذمے داری شہر میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار کے علاوہ اس کی تقسیم بھی تھی۔ اس کمپنی کو 2005ء میں نجی شعبے میں دیا گیا تھا اور 2009ء میں دبئی کی ایک کمپنی،ابراج گروپ نے اس کے حصص خریدے تھے۔آج بعض حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان میں نج کاری کا سب سے بڑا نقصان دیکھنا ہو تو پہلے کراچی کی بجلی کمپنی ‘ پھر کراچی کے شہریوں اور شہر کے اندھیروں کو دیکھ لیں۔

اس ادارے کے کام کرنے کا انداز دیکھنا ہوتو آپ بجلی نہ ہونے کی شکایت کر دیں… کوئی گاڑی نہیں آئے گی۔ آپ کے گھر میںکئی روزسے بجلی نہ ہو، کوئی پوچھے گا بھی نہیں… لیکن بجلی کا بل ایک مہینہ نہ بھریں پھر اس ادارے کی پھرتی دیکھیں۔ انتہائی ’’برق رفتار‘‘ کے ساتھ آپ کا بجلی کے ساتھ ’’تعلق‘‘ منقطع کر دیا جائے گا۔ ملک کےسب سے بڑے شہر کراچی میں تانبے کے تار اتار کر سلور کے تار ڈال دیے گئے ہیں۔چناں چہ پارہ اڑتیس سے اوپر جائے تو یہ تار زمین پر آ جاتے ہیں۔ پورے ملک میں کراچی کی بجلی کمپنی کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ اللہ بھلا کرے سندھ ہائیکورٹ کا‘ جس نے دوتین برس قبل نیپرا کو حکم دیاتھا کہ وہ کراچی کی بجلی کمپنی کے خلاف کارروائی کرے۔ نیپرا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ کراچی کی بجلی کمپنی کا ترسیلی نظام خرابیوں سے بھرپور ہےاور کمپنی کراچی کے عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ نیپراکے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو نوٹس موصول ہونے کے باوجود کراچی کی بجلی کمپنی نے جواب دینا تک گوارا نہ کیا… اب کمپنی کے خلاف نیپرا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی‘ جس کے مطابق کراچی کی بجلی کمپنی کو دس کروڑ روپے یومیہ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی کے معاملات دیکھنے کے لیے اتھارٹی ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کر سکتی ہے۔لیکن اس کے بعد کیا ہوا کسی کو کچھ پتا نہیں۔

بڑے بریک ڈائون ہونا اور ہائی ٹینشن لائن ٹرپ ہونا معمول بن گیا ہے۔ کراچی کے شہری ’’کینڈل لائٹ‘‘ سحری اور افطارتک کے مزے لے چکے۔وہ سڑکوں پربھی آتے رہتے ہیں۔اگر یہ ہی صورت حال رہی توحالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔

اس کمپنی کے معاملات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ نج کاری کے معاہدے کے تحت اس کمپنی کو نئے منصوبے شروع کرنے تھے ،لیکن اس پر عمل ہوا اور نہ ہی نصب شدہ بجلی گھروں سے مطلوبہ مقدار میں بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ فرنس آئل منہگاہے چناں چہ کمپنی کی انتظامیہ پیداواری لاگت کم رکھنے کے لیے اپنے بعض تھرمل یونٹس نہیں چلا رہی اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے نیشنل گرڈ سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ان کا عذر یہی رہتا ہے کہ تیکنیکی خرابی کی وجہ سے پلانٹ بند ہیں۔ ابراج گروپ کی انتظامیہ نے کمپنی کو بحران سے نکالنے کے لیے سسٹم میں 500 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیاتھا اور اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیاتھا کہ وہ بجلی کی پیداوار میں سالانہ 1000 میگاواٹ کا اضافہ کرے گی اور بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فروخت بھی کرے گی۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ ابراج گروپ نے چارج سنبھالتے ہی سسٹم سے 1199 میگاواٹ بجلی غائب کرکے شارٹ فال ظاہر کیا اور واپڈا‘ کینپ‘ ٹپال اور گل احمد سے بجلی خریدنا شروع کر دی۔ کراچی کی بجلی کمپنی 1500 میگاواٹ تک مزید بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن فرنس آئل سے چلنے والے پلانٹس میں جلنے والا تیل بچانے کی خاطر ابراج گروپ نے پلانٹس بند کردیے۔ جس کے بعد کراچی میں بجلی کا بحران انتہائی سنگین صورت اختیار کر گیا اور 6 گھنٹے ہونے والی لوڈ شیڈنگ 18 سے 20 گھنٹے تک جا پہنچی۔ صنعتیں بجلی کی عدم فراہمی کے باعث بندش کا شکار ہوئیں اور تباہی کے دہانے پر جا پہنچیں۔ بڑے سرمایہ داروں نے اپنا کاروبار کراچی سے ڈھاکا‘دبئی اور ملائشیا منتقل کیا۔ شہر قائد میں بے روزگاری بڑھی اور جرائم میں بھی اضافہ ہوا۔

کراچی کو بجلی فراہم کرنےوالی کمپنی، جس کا اصل نام کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن تھا، اسے بعد میں نجی تحویل میں لینے والوں نے اسے کے الیکٹرک کردیا۔ آج کل یہ اسی نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ا س کے بارے میں بہت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ یہ اپنے فرائض ادا کرنےمیں نہ صرف بری طرح ناکام رہی ہے بلکہاس نے غلط اور غیر معیاری میٹرز لگا کر صارفین سے کروڑوں روپے اینٹھ لیے۔ اس سے پہلے اس ادارےکوخریدنے والی کمپنی سعودی عرب کی تھی، جس نے اسے 164ملین ڈالرزکے عوض خریدا تھا۔ اس کی اہم حصے دار ایک جرمن کمپنی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ پھر یہ متحدہ عرب امارت کے کچھ لوگوں کے ہاتھ بک گئی جو آج بھی اس کے مالک ہیں۔عارف نقوی اس کے چیف آفیسر ہیں۔یہ لوگ بجائے کراچی کے پرانے تاروں اور سپلائی سسٹم کو جدید طرزسے لیس کرتے انہوں نےصرف پرانے قرضے اکٹھا کرنا شروع کردیے۔ نتیجتاً کراچی میں بجلی کا بحران اب بھی شدت سے موجود ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس ادارے سےبہت بڑے بڑے پاکستانی سیاست دانوں کو کمیشن جاتاہے،اس لیے کوئی اس پر شور نہیں مچاتا۔یہ الزام صحیح ہے یا غلط، مگر یہ بات طے ہے کہ کے الیکٹرک اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہے،لیکن آج اس کے مالکان کے پاس اربوں روپے جمع ہوگئے ہیں۔

بجلی اور پانی فراہم کرنے والے اداروں کو یوٹیلٹی کمپنیز کہا جاتاہے۔کراچی میں تو کہانی ہی کچھ اور ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے کھوج لگاکر یہ چونکادینے والا انکشاف کیا کہ کے الیکٹرک، جسے شنگھائی الیکٹرک کمپنی خریدنے میں دل چسپی رکھتی تھی اسے 64.3 فی صد حصے کے مالک ہونے کا اختیار ہوتا۔ عارف نقوی اور دیگر با اثر شخصیات نے یہ ڈیل مکمل ہونے سے روک دی۔وال اسٹریٹ جنرل نے الزام لگایاتھا کہ شریف برادران کو 20 ملین ڈالر ز رشوت دی گئی تھی جس سے کے الیکٹرک کی فروخت رک گئی۔جب بات کھل گئی تو موجودہ وزیر اعظم نے اس کا سختی سے نوٹس لیا ۔نیب اور فیڈر ل انویسٹی گیشن ایجنسی کو حکم دیا کہ معاملے کی پوری طرح تحقیقات کی جائے ۔وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ س ضمن میں ایف آئی اے یا نیب کو تحقیق کرنے کا کام سونپا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ عمران خان کے احکامات کے جاری ہوتے ہی کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو عارف نقوی نے پریس ریلیز جاری کی کہ وہ ایک منصوبے کے تحت کراچی کے سارے گلے ہوئے تاروں کو جدید بنائیںگے۔ اسی طرح پول پرلگے ہوئے ٹاور بھی نئے لگائے جائیں گے تاکہ بجلی کا نظام صحیح ہوسکے۔ سوال یہ ہے کہ اب انہیں یہ خیال اتنے برسوں بعد کیوں آیا۔ پہلے جو کچھ معاہدے میں لکھا گیا تھا اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ ایف آئی اے نے معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے کچھ سرگرمی دکھائی اورعارف نقوی کو نوٹس بھجوایا جس میں کہا گیا تھاکہ دفتر میں آکر جواب دیں، ریکارڈ بھی ساتھ لائیں۔لیکن پھر کیا ہوا؟شاید بجلی چلی گئی۔ عام خیال یہی ہے کہ اب بھی کے الیکٹرک کے خلاف کوئی ٹھوس یا غیر معمولی کاررروائی نہیں ہوگی اور کراچی والے یوں ہی سسکتے اور مرتے رہیں گے۔

گراؤنڈ، سگنل گراؤنڈ اور ارتھ کے مابین فرق

کراچی میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے بڑی تعداد میں ہونے والی اموات کے ضمن میں ماہرین نے دوتین بنیادی وجوہات بتائی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اب عموما بجلی کے کھمبوں کو ارتھ کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی،حالاں کہ ماضی میں لازما ہر کھمبے کوارتھ کیا جاتا تھا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پہلے جب بجلی کا کوئی تارٹوٹتا تھا تو ترسیل کے نظام میں ایسا انتظام ہوتا تھا کہ وہ وہ تار زمین پر گرنے سے پہلے ڈس چارج ہوجاتا تھا،لیکن اب لائیو تا ر زمین پر گرتا ہے،یعنی اس میں بجلی کا بہاو جاری رہتا ہے۔ان حالات میں وہ تار موت کا کھلا پیغام ہوتا ہے۔

ارتھنگ کا نظام سمجھنے کے لیے کچھ تیکنیکی باتیں جاننا ضروری ہیں۔ گراؤنڈ، سگنل گراؤنڈ اور ارتھ ،یہ تینوں نشانات (سمبلز) ایسے کنکشن کی نمائندگی کرتے ہیں جو ایک ہی مقام پر واقع ہو اور وہ مقام صفر وولٹیج کا حامل ہو۔ تاہم ان تینوں کا مقصد مختلف ہوتا ہے۔

گراؤنڈ یا چیسسز گراؤنڈ اس ڈبے یا فریم کو کہتے ہیں جس میں کوئی سرکٹ تیار کیا جاتا ہے۔ مثالی طور پریہ ایسا گراؤنڈ ہوتا ہے جو استعمال کنندہ اور اس کے اندر موجود سرکٹ کے درمیان ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے تاکہ برقی صدمے سے حفاظت مہیا کرے یا بیرونی برقی مداخلت(انٹرفیرینس) یا تاب کاری (کسی بھی نوعیت کی برقی لہریں) سے حفاظت فراہم کرے۔چند ہائی کرنٹ اطلاقات میں یہ گراؤنڈ ایسے موصل (کنڈکٹر) کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں سے کرنٹ گزر رہا ہو۔ مثال کے طور پر گاڑی میں،جہاں برقی کنکشن کرنے کے لیے موٹے موٹے متعدد تاربیٹری سے گاڑی کے مختلف آلات تک استعمال کیے جاتے ہیں۔بیٹری کے دو ٹرمینلز ، مثبت اور منفی ہوتے ہیں۔ مثبت ٹرمینل سے تارجوڑے جاتے ہیں۔ منفی ٹرمینل کو گاڑی کی دھاتی باڈی سے منسلک کر دیا جاتا ہے جو تاروں کی جگہ استعمال ہوتی ہے۔ یوں منفی کنکشن مشترک ہو جاتا ہے جسے گراؤنڈیا چیسسز گراؤنڈ کہا جاتا ہے۔

سگنل گراؤنڈ ایسا حوالہ جاتی مقام ہوتاہے جہاں سگنل کی پیمائش کی جاتی ہو۔ جب کرنٹ کسی سرکٹ سے گزرتاہے تو سرکٹ کے مختلف مقامات پر مختلف قدر کا وولٹیج ڈراپ واقع ہوتا ہے۔ بعض گراؤنڈمقامات دوسروں کی نسبت قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی ایک سرکٹ میں متعدد سگنل گراؤنڈز موجود ہو سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک ایمپلی فائر کا وولٹیج گین 100 ہے اور یہ بہت خفیف سگنل کو ایمپلی فائی کر رہا ہے۔اگر سگنل کے گراؤنڈ کو محض 0V01 حد تک بڑھایا جائے تو آؤٹ پٹ سگنل 1V0 تک غلط ہو جائے گا۔ مثالی طور پر سگنل گراؤنڈایساکنکشن ہو گاجو سرکٹ کے اسی درجے (Stage)سے منسلک ہو جس میں سگنل کو منسلک کیاگیا تھا۔

ارتھ یا ارتھ گراؤنڈ نظریاتی طور پر برقی اعتبار سے صفر ہوتا ہے۔ یہ انتہائی موصل زمین کا پوٹینشل ہوتا ہے لیکن یہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ چٹانی پہاڑوں پر خشک موسم میں بہت کم زور ارتھ ہوتا ہے،لیکن مرطوب موسم میں یہ اتنا کم زور نہیں ہوتا۔ عام طور پر زمین سے ارتھ کنکشن مین اے سی سپلائی لائن کے ساتھ کیا جاتا ہے جہاں زمین کے اندر ایک دھاتی سلاخ چند فیٹ تک دبا دی جاتی ہے اور اسے تاروں کی مدد سے مین اے سی سپلائی لائن تک لایا جاتا ہے۔ اسی طرح ریڈیائی مواصلات میں بھی ایریل یا اینٹینے کے مقابلے میں یہی ارتھ گراؤنڈبہ طور صفر حوالہ (زیرو ریفرینس) استعمال کیا جاتا ہے۔

الیکٹرانک کے آلات میں استعمال کردہ پرزہ جات کو سرکٹ ڈایاگرام کے مطابق باہم جوڑنے کے لیے زیادہ تر پرنٹڈ سرکٹ بورڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں بھی پاور سپلائی کے منفی ٹرمینل (جسے عام طور پر صفر پوٹینشل ٹرمینل کہا جاتا ہے) کو مشترک رکھا جاتا ہے اور اسی کو گراؤنڈ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض سرکٹس میں ایسی برقی سپلائی استعمال کی جاتی ہے جس میں مثبت، صفر اور منفی تینوں کنکشن ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی عموما" صفر پوٹینشل والا ٹرمینل مشترک یا گراؤنڈ رکھا جاتا ہے۔ پرنٹڈ سرکٹ بورڈ یا پی سی بی پر ایک یا ایک سے زاید گراؤنڈز کنکشن بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ چیسسز گراؤنڈ یا ارتھ نوعیت کے کنکشن عام طور پر پی سی بی میں نہیں پائے جاتے۔ تاہم بعض صورتوں میں ایک یا ایک سے زاید پی سی بی بڑے چیسسز کے حصوں کے طور پر شامل ہو سکتے ہیں جہاں کوئی ایک مشترک ارتھ کنکشن موجود ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا انتہائی مخصوص حالات میں ہوتا ہے۔ پی سی بی پر ایک یا ایک سے زاید گراؤنڈ سطحیں ( لیئرز Layers) موجود ہو سکتی ہیں لیکن یہ یا تو سگنل گراؤنڈز ہوں گی یا برقی قوت کی ترسیلی گراؤنڈز ہوں گی۔

کرنٹ لگنے کا عمل

بجلی کا کرنٹ ہمارے جسم اور زندگی دونوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔یہ کم یا زیادہ کرنٹ لگنے پر منحصر ہے۔ بعض اوقات بجلی کے کرنٹ سےجِلد جل جاتی ہے، اور کبھی کوئی نشان بھی نہیں پڑتا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ اس سے جسم کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔دراصل ان دونوں صورتوں میں جسم کے اندرونی نظام کو بہت سخت نقصان پہنچتا ہے جس سےدل، دماغ اور پٹھوں میں کھینچاو پیدا ہو سکتا ہے۔ بعض حالات میں یادداشت پربھی اثر پڑ سکتا ہے۔

اکثر گھریلو خواتین استری کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتیں اور گرم استری کوتار سے ٹچ کر دیتی ہیں جس سے تار کی انسولیشن جل جاتی ہے اور کرنٹ لگنے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے یا واشنگ مشین استعمال کرنے کے دوران اس کاتار پانی سے نہیں بچاتیں۔ بعض اوقات واشنگ مشین کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتے وقت اس کا تار پہیوں کے نیچے آنے سے چھل سکتا ہے، جس سے نقصان کا اندیشہ ہوتاہے۔ بچوں کی پہنچ میں آنے والے ساکٹ پر سیفٹی کیپ چڑھائیں، ٹیپ کر دیں یا اگروہ استعمال میں نہیں ہے تو اسےبند کر دیں ورنہ بچہ نا سمجھی کی وجہ سے اپنا نقصان کر سکتا ہے۔

اگر کسی ہائی وولٹیج کے کھمبے میں نقص ہو یا یوٹیلیٹی کمپنی کی ارتھنگ کسی بھی وجہ سے باقاعدہ یا بالکل نہ ہو تو بجلی کا کھمبا چھونے سے کرنٹ کو low resistance path مل جاتا ہےاور کرنٹ انسان کے جسم کے ذریعے گزرنے لگتا ہےجسے Touch Potential کہتے ہیں۔

اگر آپ کھمبے سے کچھ فاصلےپر کھڑے ہوں تب بھی ہو سکتا ہے کہ کرنٹ کو آپ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان potential difference مل جائے اور آپ کو زمین سے کرنٹ لگنے کا احساس ہو۔ اسے Step Potentialکہتےہیں۔ اس طرح اکثر جانوروں کو مرتے دیکھا گیا ہے کیوں کہ ان کی اگلی اور پچھلی ٹانگوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا ہے ۔گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک گائے کو اس طرح موت کے منہ میں جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

احتیاطی تدابیر

اگر کرنٹ لگ جائے تو کرنٹ لگنے والے کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ کوشش کریں کہ بجلی کی سپلائی بند کر دیں۔ اگر اسے کسی وجہ سے بند نہ کر سکیں تو کسی خشک لکڑی یا پلاسٹک کی شے سے متاثرہ شخص کو تاروں سے الگ کریں اور ممکن ہو تو فوری طبی امداد دینے والے ادارے کو مطلع کر دیں۔ امداد آنے تک مریض کی ظاہری صورت حال کا معائنہ کیجیے۔ اگر سانس صحیح سے نہیں چل رہا ہوتو مصنوعی سانس دیجیے۔ اگر کرنٹ لگنے سے زخم آ چکا ہو تو صاف کپڑے سے زخم صاف کر کے جسم سے تھوڑا اونچا رکھیں اور دل کی دھڑکن چیک کریں۔ اگر دھڑکن ڈوبتی ہوئی ،یعنی کم ہوتی محسوس ہو تومتاثرہ شخص کو جلد از جلداسپتال پہنچانے کا انتظام کیجیے۔

عام طورپر ایسے حادثات برسات میں ہوتے ہیں ۔ایسے میں درختوں کے نیچے کھڑا ہونا خطرناک ہوتا ہے کیوںکہ درخت سے آسمانی بجلی ٹکرا کر زمین تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں درخت کے نیچے پناہ لینا محفوظ نہیں ہے۔ آسمانی بجلی سے متاثرہ افراد اکثر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔لیکن جہاں بہت سارے درخت ہوں وہاں پناہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ آسمانی بجلی کا خطرہ دھات کے ستون ، زیور، اسلحے ، چھتری یا موبائل وغیرہ چلانے سے بڑھتا ہے۔

متاثرہ شخص کو علاج کے طور پر درد میں کمی کی دوا دی جا سکتی ہے۔متاثرہ شخص کو آرام دینےکے علاوہ اس کا حوصلہ بڑھانابھی ضروری ہوتا ہے۔ بجلی کا کام کرتے وقت گیلے ہاتھوں سے کام مت کریں۔ویسے بھی ربرکی چپل پہننے سے بجلی کے کرنٹ سے حفاظت ملتی ہے کیوں کہ اس چپل میں سے بجلی نہیں گزرپاتی۔یوں وہ زمین تک نہیں پہنچ پاتی اور آپ کو جھٹکا نہیںلگتا۔یہ کرنٹ جسم سے گزر کر جہاں سے زمین میں داخل ہوتا ہے وہاں جلنے کا نشان چھوڑ جاتا ہے۔

برسات کے دنوں میں سب سی پہلی احتیاط تو یہ ہے کہ اگر آپ کراچی جیسے لاوارث شہر میں رہتے ہیں تو بارش میں بغیر کسی اشد ضرورت کے لھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کریں اور اگر نکلنا پڑ جائے تو اچھے ربر کے موٹے تلے والے جوتے استعمال کریں۔

کسی بھی قسم کے کھمبوں کو ہرگز ہرگز نہ چھوئیں۔ اگر آپ کوپانی میں پاؤں رکھ کر گزرنا پڑے تو پاؤں گندے کر لیں لیکن کبھی کسی کھمبے کونہ چھوئیں یا اس کے پاس سے نہ گزریں۔

اگر خدانخواستہ کبھی آپ کو زمین سے کرنٹ لگنا شروع ہو جائے تو فوراً ایک ٹانگ کو زمین سی اٹھا لیں اور ایک ہی ٹانگ پہ رہتے ہوئے جمپ کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں۔ اس طرح شاید آپ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں۔

تازہ ترین