• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5اگست کو بھارت کی مودی سرکار نے اپنے آئین کے آرٹیکلز، 370 اور 35 اے منسوخ کر دیے، جس کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ یہ آرٹیکلزاقوامِ متّحدہ کی قراردادوں کی بھی عکّاسی کرتے تھے، کیوں کہ ان کی رُو سے مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کے باسیوں کو استصوابِ رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل کی تنسیخ نے پوری دُنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی ۔ آئین میں ترمیم سے قبل مزید ہزاروں فوجی مقبوضہ کشمیر بھیجے گئے، جہاں پہلے ہی 7لاکھ بھارتی سپاہی تعینات تھے۔ نیز، آئینی ترمیم کے بعد کشمیری عوام کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور کشمیریوں کی عید بھی کرفیو ہی میں گزری۔ دوسری جانب بھارت کے اس غیر آئینی اقدام پر غور کے لیے پاکستان کی درخواست پر 50برس بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کائونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، جب کہ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کشمیریوں کا مقدّمہ لڑنے کے لیے ستمبر میں اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک بھی جائیں گے،جو عموماً 6ستمبر سے لے کر مہینے کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ مودی سرکار کے اس عاقبت نا اندیشانہ فیصلے نے کشمیری عوام کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ وہ کسی صُورت بھی یہ فیصلہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ نیز، پاکستان بھی، جو مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے، اسے مسترد کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر مُلک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ گرچہ مقبوضہ وادی میں شدید بے چینی اور خوف پایا جاتا ہے، لیکن کشمیری عوام کی آواز دبانا ناممکن ہے۔ بھارت کے زیرِ تسلّط اس خطّۂ ارض میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو پہلے ہی عام تھیں، لیکن اب کشمیری عوام کو خوراک اور ادویہ تک دست یاب نہیں۔ البتہ اصل صورتِ حال کرفیو ہٹنے کے بعد ہی منظرِ عام پر آئے گی، جو یقیناً بھیانک ہو گی۔(تادمِ تحریرکرفیو نافذ ہے) چوں کہ مقبوضہ کشمیر ’’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘‘ کہلاتا ہے، لہٰذا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے یہ قدم کیا سوچ کر اُٹھایا، جب کہ ان کے پاکستانی ہم منصب، عمران خان ان کےدوسرے دورِ حکومت میں مسئلہ کشمیر کے حل کی توقّع کر رہے تھے۔ نیز، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی درخواست کے انکشاف سے بھی محسوس ہورہا تھا کہ مودی نے عقل کا دامن تھام لیا ہے، لیکن آرٹیکل 370کی منسوخی نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

مستحکم پاکستان، آزادی کشمیر کا ضامن
وزیرِاعظم، عمران خان پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے

اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر کا مقدّمہ اقوامِ متّحدہ میں لڑا جائے، تو کیا صورتِ حال جنم لے گی۔ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سفارتی محاذ پر سب سے زیادہ فعال و متحرک نظر آئے ۔ ایک موقعے پر اُن کا کہنا تھا کہ اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کائونسل کے 5مستقل اراکین میں سے کوئی ایک بھی پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے کوششوں میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ سفارتی اصطلاح میں اسے کسی بھی قرار داد کو’’ ویٹو کرنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’پاکستانیوں اور کشمیریوں کو کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے۔ وہاں ( اقوامِ متّحدہ میں) کوئی آپ کے لیے ہار لے کر نہیں کھڑاہوتا۔ آپ کا وہاں کوئی منتظر نہیں۔ آپ کو ایک نئی جدوجہد کا آغاز کرنا پڑے گا۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’بھارت ایک ارب افراد کی مارکیٹ ہے۔ بہت سے لوگوں نے وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہاں اُن کے مفادات ہیں۔‘‘ شاہ محمود قریشی کو داد دینا پڑے گی کہ عید کے موقعے پر آزاد کشمیر میں منعقدہ ریلیوں کی پُرجوش قیادت کے بعد اُسی روز شام کو یہ حقیقت بیان کر دی۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ وزیرِ خارجہ نے اشارۃً اُن عوامل کا ذکر کیا، جن کو سامنے رکھ کر کشمیر سے متعلق پالیسی کو ازسرِ نو تشکیل دیا جائے گا اور اس ضمن میں تمام بڑی طاقتوں سے روابط پر غور کیا جائے گا۔ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے اگر بھارت اور سلامتی کائونسل کے5مستقل رُکن ممالک (امریکا، چین ، رُوس، برطانیہ اور فرانس)کے درمیان تعلقات پر نظر دوڑائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ چین کی، جو ہمارا سب سے قریبی اور گہرا دوست ہے، بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم 120ارب ڈالرز سے زاید ہے۔ 

مستحکم پاکستان، آزادی کشمیر کا ضامن
شاہ محمود قریشی

نیز، چین’’ برکس‘‘ کا بھی رُکن ہے، جس کے رُکن ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں، دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل ہیں۔ ان کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی ہیں ، جب کہ مودی اور شی کے درمیان بھی خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ چین وقتاً فوقتاً پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر زور دیتا ہے اور خود اُس کی بھی یہی پالیسی ہے۔ چاہے وہ تائیوان کا معاملہ ہو یا نائن ڈاٹ پالیسی، جاپان کے ساتھ جزائر کا تنازع ہو یا امریکا سے تجارتی جنگ۔ اسی طرح امریکا، بھارت کو سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے اور یہ سب سے بڑے تجارتی پارٹنرز بھی ہیں۔ بھارت بڑے پیمانے پر امریکا سے دفاعی ساز و سامان خریدتا ہے، جب کہ امریکا سے پاکستان کو یہ شکایت ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کی رُوس سے بھی دیرینہ دوستی ہے اور امریکا سے قبل ماسکو ہی نئی دہلی کو دفاعی ساز و سامان فروخت کیا کرتا تھا۔ پھر رُوس نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے میں بھی کردار ادا کیا اوردو برس قبل بھارت میں ایٹمی حملے سے بچائو کے لیے دُنیا کا جدید ترین آئرن ڈوم سسٹم بھی نصب کیا۔ یہ سسٹم دُنیا میں صرف 5ممالک کے پاس ہے، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ 

مستحکم پاکستان، آزادی کشمیر کا ضامن
ملیحہ لودھی

اسی طرح برطانیہ اور فرانس کے بھی بھارت سے مفادات وابستہ ہیں۔ اگر اسلامی ممالک کے بھارت سے تعلقات کا جائزہ لیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت، ایران پر عاید امریکی پابندیوں کے باوجود اس سے تیل خریدتا رہا۔ نیز، ایران کی چاہ بہار پورٹ اور ایران، افغانستان شاہ راہ بھی بھارت ہی نے تعمیر کی۔ علاوہ ازیں، نئی دہلی نے تہران میں تقریباً 20ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی، جس سے ایرانی معیشت کو سہارا ملا۔ ایرانی صدر، حسن روحانی اپنے پانچ روزہ دورۂ بھارت میں بھارت کو اپنا قریب ترین حلیف قرار دیتے رہے۔اسی طرح حال ہی میں سعودی عرب کی معروف کمپنی،’’ آرام کو‘‘ نے بھارت کے سب سے بڑے صنعت کار، مکیش امبانی کے ادارے سے 15ارب ڈالرز کی(تقریباً24ً کھرب 3ارب پاکستانی روپے ) سب سے بڑی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے۔ مکیش امبانی پوری سرمایہ کاری میں 20فی صد کے حصّے دار ہوں گے۔نیز، انسانی حقوق کے حوالے سے بھی اسلامی ممالک کا کردار قابلِ رشک نہیں۔ شام میں بشار الاسد کی افواج نے 5لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا۔ ایک کروڑ 20لاکھ شامی باشندے سرحدوں پر بنے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ شامی حکومت نے اپنے ہی عوام پر کیمیائی گیس کا بھی استعمال کیا۔ اس دوران رُوس بھی شامی حکومت کے ساتھ مل کر نہتّے شہریوں پر بم باری کرتا رہا، لیکن کسی اسلامی مُلک نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ محض چند مثالیں ہیں اور انہی کی بنا پر ناقدین کا کہنا ہے کہ محض بیان بازی سے بھارت پر دبائو نہیں ڈالا جا سکتا۔ البتہ شاہ محمود قریشی نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو یہ بتا دیا کہ اگر وہ آزادی چاہتے ہیں، تو انہیں خود ہی جدوجہد کرنا پڑے گی، پاکستان صرف سفارت کاری کے ذریعے مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم کو دُنیا کے سامنے اجاگر کر سکتا ہے۔

مستحکم پاکستان، آزادی کشمیر کا ضامن
مسئلہ کشمیر پر بلائے گئے سلامتی کائونسل کے ہنگامی اجلاس کا ایک منظر

گرچہ ماضی میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے ادوارِ حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارت کی سول سوسائٹی بھی پاک، بھارت دوستی پر زور دیتی رہی، لیکن اس وقت بھارت میں انتہا پسندی عروج پر ہے ۔ آج انتہا پسند ہندو پاکستان سے تعلقات کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں اور جذباتی بھارتی اینکرز جنگ و جدل کی باتیں کر رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان فن کاروں نے بھارت میں نہ صرف کروڑوں روپے کمائے، بلکہ اعلیٰ ترین ایورڈز بھی حاصل کیے، لیکن اب صفِ اوّل کے مسلمان بھارتی اداکاروں کو پاکستان کُوچ کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ تاہم، بھارت کے نفرت انگیز اور جارحانہ اقدامات پر پاکستان نے کافی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ سے لے کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پہلے تک بار ہا اپنے بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کی پیش کش کی۔ پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کے تحت کرتار پور راہ داری کھولی ۔ عمران خان نے مودی کو دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے پر ایک سے زاید مرتبہ مبارک باد کے پیغامات بھیجے، لیکن اس کا نتیجہ آرٹیکل 370کی منسوخی کی صُورت نکلا۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا، مودی اس نعرے کے تحت ہی مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے اور اپنی انتخابی مُہم میں بار بار مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے رہے، لیکن عالمی طاقتوں سمیت اُمّتِ مسلمہ کے رہنمائوں نے اس کی کبھی مذمّت نہیں کی اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمران خان یہ سب کچھ جاننے کے باوجود مودی کو مذاکرات کی پیش کش کرتے رہے۔ شاید وزارتِ خارجہ نے انہیں یہ باور کروایا تھا کہ بھارتی انتخابات کے فوراً بعد حالات نارمل ہو جائیں گے، جب کہ بھارت کی سیاست پر گہرے نظر رکھنے والے ماہرین اُس وقت بھی یہ کہہ رہے تھے کہ مودی اپنے’’ کشمیر پلان‘‘ کو ضرور عملی جامہ پہنائیں گے ،جس کے تدارک کے لیے اندرونِ مُلک سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہے۔ ہر چند کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کو کشمیر کا مقدّمہ تنہا ہی لڑنا پڑے گا، لیکن اب اس کی نوعیت پرغورکرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران قائدِ حزبِ اختلاف، شہباز شریف کی تقریر کے جواب میں وزیرِ اعظم، عمران خان نے سوال کیا تھا کہ ’’ کیا مَیں بھارت پر حملے کا حکم دے دوں؟‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ایک پُر امن مُلک ہے اور اپنے تمام تنازعات پُر امن انداز سے طے کرنا چاہتا ہے، لیکن شاید مودی سرکار کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔

مستحکم پاکستان، آزادی کشمیر کا ضامن
بھارت کا یومِ آزادی’’یومِ سیاہ‘‘ کے طور پر منایا گیا، اس موقعے پر لاہور میں نکالی گئی ریلی کا ایک منظر

پاکستان کی درخواست پر اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کائونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ، جو ایک مستحسن عمل ہے، کیوں کہ بھارت نے اقوامِ متّحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا۔ سلامتی کائونسل کے 5مستقل ارکان کسی بھی معاملے پرکو ئی وجہ بتائے بغیر بھی ویٹو کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ویٹو کا اختیار استعمال کرنے کی کئی تکلیف دہ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اگر حالیہ زمانے کی بات کی جائے، تو شام میں خانہ جنگی کے دوران ساری دُنیا کے احتجاج، لاکھوں افراد کے قتلِ عام اور کروڑوں افراد کے بے گھر ہونے کے باوجود پہلے رُوس اور بعد میں چین شام کے مسئلے پر سلامتی کائونسل میں پیش کی گئی قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا۔ اگر پاکستان کی درخواست پر طلب کیے گئے سلامتی کاؤنسل کے ہنگامی اجلاس کی بات کی جائے، تو رُوس اس سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے چکا تھا، لہٰذا، شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا غلط نہیں کہ’’ سیکوریٹی کاؤنسل میں ہمارے لیے کوئی ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ چُوں کہ پاکستان سلامتی کاؤنسل کا رُکن نہیں، لہٰذا وہاں کشمیر کا مقدّمہ پیش کرنے کے لیے پاکستان کو وکیل کے طور پر کسی مُلک کی ضرورت ہو گی اور چین کی شکل میں ہمیں وکیل بھی مل گیا۔تاہم، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سیکوریٹی کاؤنسل میں دلائل سے زیادہ مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ تاہم، مسئلہ کشمیر پر گزشتہ 50برس میں پہلی مرتبہ سلامتی کاؤنسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا اور اس میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر بحث ہونا ہی پاکستان کی ایک بڑی کام یابی سمجھی جائے گی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں بھارت پر کم از کم اخلاقی دبائو تو پڑے گا۔ سلامتی کائونسل کے ہنگامی اجلاس میں صرف چین کی طرف سے ردِ عمل سامنے آیا، جب کہ رُکن ممالک کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔ البتہ چین سمیت سلامتی کائونسل کے تمام رُکن ممالک کی مجموعی رائے یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی ایسے یک طرفہ اقدام سے گرنا چاہیے کہ جو حالات کو سنگین بنا دے ، لہٰذا دو طرفہ بات چیت کریں۔ تاہم، بھارت کا اصرار ہے کہ دو طرفہ مذاکرات سے قبل پاکستان دہشت گردی ختم کرے اور پاکستان اس بھارتی الزام کو مسترد کرتا ہے ، جب کہ عمران خان دہشت گردی سمیت ہر معاملے پر مذاکرات کی پیش کش کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے از خود دو مرتبہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی ہے اور وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ رواں برس وزیرِ اعظم اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مقدّمہ لڑیں گے، حالاں کہ گزشتہ برس عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اگر وہ اس اجلاس میں شرکت کرتے، تو وہاں انہیں ایک چھت تلے عالمی رہنمائوں سے ملاقات کا موقع ملتا اور مستقبل کے مراحل بھی آسان ہو جاتے۔ بہر کیف، مسئلہ کشمیر کو پہلے بھی اس عالمی فورم پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور ایسا سالہا سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ گو کہ جنرل اسمبلی کی کسی قراداد پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں ہوتا، لیکن اس اجلاس میں رہنمائوں کو دُنیا تک اپنی بات پہنچانے کا موقع ضرور ملتا ہے اور وقت کا زیاں قرار دے کر اس موقعے کو ضایع کرنا دانش مندی نہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اس پلیٹ فارم پر اپنا مقدّمہ پیش کرتے ہیں، تو ہمیں متوقّع نتائج نہیں مل پاتے اور پھر ہم ایک دوسرے ہی پر الزامات عاید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں تمام بین الاقوامی اداروں کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں عالمی عدالتِ انصاف میں بھارتی جاسوس، کلبھوشن یادیو کے مقدّمے کا فیصلہ ہمارے لیے ایک مثال ہے۔

مستحکم پاکستان، آزادی کشمیر کا ضامن
پاکستانی طالبات بھارتی پرچم اور نریندر مودی کی تصویر نذرِ آتش کررہی ہیں

پاکستان کا 73واں یومِ آزادی ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘ کے طور پر منایا گیا ۔ اس موقعے پر پاکستانی عوام نے والہانہ انداز میں کشمیر عوام سے یگانگت کا اظہار کیا، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس گرم جوشی اور والہانہ پن کو وہ ٹھوس اور عملی شکل کس طرح دی جائے کہ جس سے ہمارے کشمیری بھائیوں کے ہاتھ مضبوط ہوں اور اُن کی جدوجہدِ آزادی ثمر خیز ہو۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا راستہ پاکستان سے جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے ہمیں خود کو مستحکم کرنا ہو گا۔ ہمارے تمام دوست ممالک بالخصوص چین بھی ہمیں یہی مشورہ دیتا ہے کہ ہمیں اپنی معیشت پر پھرپور توجّہ دینی چاہیے۔ چین، سی پیک کی شکل میں پاکستان میں کم و بیش 60ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اس وقت اقتصادی معاملات میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ لہٰذا، وہ اپنی سرمایہ کاری کو ڈوبتا نہیں دیکھ سکتا۔ ایسا ممکن نہیں کہ پاکستان کشمیریوں کی مدد بھی کرے اور پاکستان کی لیڈر شپ اپنے شہریوں کے لیے امداد بھی مانگتی پھرے۔ جیسا کہ وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ممالک کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں، تو ہمیں ایک ایسی پالیسی تشکیل دینی چاہیے کہ جس سے اہم ممالک کے اقتصادی مفادات ہم سے وابستہ ہو جائیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی آبادی 22کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہ کوئی چھوٹی مارکیٹ نہیں۔ پاکستان کو صرف مخلص اور دُور اندیش قیادت کی ضرورت ہے۔ اقوامِ عالم کسی بھی مُلک سے تعلقات استوار کرتے ہوئے یہ بات پیشِ نظر رکھتی ہیں کہ اس سے ان کی قوم کو کیا فواید حاصل ہوں گے۔ سنگاپور، تائیوان، جنوبی کوریا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک بھی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے دوسرے ممالک کے مفادات خود سے وابستہ کرنے میں کام یاب رہے اور آج دُنیا میں اُن کی اپنی ایک اہمیت ہے، جب کہ پاکستان 22کروڑ کی آبادی کا مُلک اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی مجبور و مقہور ہے۔ اگر ہمیں کشمیریوں سے واقعی ہم دردی اور لگائو ہے، تو ہمیں معاشی طور پر ایک طاقت وَر مُلک بننا ہو گا۔ یاد رہے کہ چین کو ہانگ کانگ حاصل کرنے کے لیے برطانیہ سے کوئی جنگ نہیں لڑنا پڑی، بلکہ اُس کی مستحکم معیشت کی وجہ سے ہانگ کانگ پکے ہوئے پھل کی طرح اُس کی جھولی میں آن گرا۔ تائیوان کی بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ نیز، مغربی اور مشرقی جرمنی کو جرمنی بنانے میں مغربی جرمنی کی معاشی طاقت کا بڑا کردار تھا۔ اگر ہم دُنیا کی بڑی اقتصادی طاقت بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں کام، کام اور صرف کام کرنا ہو گا۔ جذبات کے اظہار سے عارضی طور پر تسکین تو حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن پائے دار ترقّی کے لیے غور و فکر اور محنت لازمی شرط ہے۔ اگر ہمیں کشمیر حاصل کرنا ہے، تو پھر خود کو منوانے کے لیے کمر بھی کَسنا ہو گی۔ اس وقت پوری پاکستان قوم میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خود کو مضبوط بناکر ہی بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں اور دُنیا بھی اُس وقت ہی ہماری رائے کو اہمیت دے گی کہ جب ہم’’ دینے‘‘ کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے معاشی سرگرمیوں کی خاطر اندرونِ مُلک ساز گار ماحول پیدا کرنا ہو گا اور جس طرح وزیرِ خارجہ نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں صاف گوئی کا مظاہرہ کیا، اسی طرح مُلک کی اقتصادی سمت کو بھی بالکل واضح کرنا ہو گا۔ حکومت کو قوم کو یہ بتانا ہو گا کہ آج سے ایک سال، 5سال یا 20برس بعد مُلک کہاں کھڑا ہو گا، تاکہ قوم کا ہر فرد یک سوئی کے ساتھ منزل کا تعاقب کرے۔ معیشت کی سمت متعین کرنے کے لیے حکومت کے اقدامات قابلِ تحسین ہیں، لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، کیوں کہ اگر ایک مضبوط معیشت کا حامل پاکستان کشمیریوں کی پُشت پر ہوگا، تو اُن کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی، مگر اس مقصد کے لیے ہمیں کٹھن راہوں کا مسافر بننا ہو گا۔

تازہ ترین