• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اندھی نفرت و محبت‘‘ کی معروف اصطلاح ملک کے ایک مستند کالم نگار کی رائے کا اظہار ہے۔ مقصدیت اس میں اس وقت فی الواقعی پیدا ہو جاتی ہے جب ہم اپنی اپنی چاہتوں یا نظریات کو ممکنہ حد تک تعصب اور جانبداری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ کالم ’’چیلنج‘‘ میں ہر دور کے حکمرانوں کے ساتھ جڑے ہوئے افراد کے اخراجات اور ریاستی اہلکاروں کے معیار و مراعات کا ذکر ہو چکا، ابھی ابھی پندرہ برس پہلے کا شائع شدہ ایک ڈیٹا میرے ہاتھ لگا جس کے مطالعہ سے طبیعت میں کپکپاہٹ اور لرزہ ہی نہیں پیدا ہوا بلکہ عام پاکستانی کے کیڑے مکوڑے ہونے کی مزید تصدیق بھی ہوئی ہے۔ پندرہ برس قبل اردشیر کائوس جی کے شائع شدہ ایک کالم کے مطابق 1985اور 1993کے درمیانی عرصہ میں پنجاب میں تین وزرائے اعلیٰ آئے جو سب پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھتے تھے، نواز شریف 1985میں تعینات ہوئے جنہوں نے 1990میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وزارت اعلیٰ چھوڑ دی، پھر غلام حیدر وائیں آئے جو 1990سے اپریل 1993تک رہے اور اس سال 29ستمبر کو قتل کر دیئے گئے۔ ان کے بعد اپریل میں منظور وٹو آئے جنہوں نے صوبے پر 82دن حکمرانی کی، تینوں تفویض کئے گئے اختیارات کے غلط استعمال کے خطا وار تھے اور ملک کے قانون کے تحت کارروائی کے مستوجب۔

یہ ڈیٹا ان حضرات کے اندازِ حکمرانی کو یوں واضح کرتا ہے کہ ایک صاحب نے جہیز اور بیت المال جیسے فنڈز میں سے تقریباً نو کروڑ روپے نکلوائے اور صوابدیدی اختیارات کے تحت تقسیم کر دیئے، دوسرے صاحب ان سے بھی آگے نکل گئے اور اپنے صوابدیدی فنڈز میں سے دس کروڑ روپے نکلوائے، ساڑھے سات کروڑ اپنے پسند کے افراد میں تقسیم کئے، پانچ کروڑ روپے اپنی پسند کے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو دیئے، تیس لاکھ روپے میاں چنوں میں اپنے ہی ادارے مرکز انجمن اسلامیہ کو دیئے، چھ لاکھ روپے چیف منسٹر ہائوس کے عملے کو دیئے، پانچ لاکھ روپے غریبوں کو ’’تحفے‘‘ کے طور پر دیئے اور ایک لاکھ روپے گورنر ہائوس کے عملے کو ’’عیدی‘‘ کے طور دیئے۔

آگے چلیں، اپنے مختصر دور میں ایک وزیراعلیٰ نے اپنے سیاسی رفقا کو تین کروڑ روپے دیئے، ایک کروڑ روپے کچھ من پسند افراد کو، ساڑھے تیرہ لاکھ روپے اپنے عملے کو ’’انعامات‘‘ کے طور پر، دس لاکھ روپے اوکاڑہ اور دیپالپور میں ’’عیدی‘‘ کے طور پر اور دس لاکھ روپے تفریح، اور ’’تمغوں’’ کے لئے وقف کئے گئے اور اپنے دوستوں کے ہوٹل کے اخراجات کیلئے انہوں نے ساڑھے تین لاکھ روپے صرف کئے، یہ صاحب اپنے حلقے والوں اور مہمانوں کی مہمان نوازی اور خاطر تواضع پر پنجاب کے خزانے سے روزانہ پچاس ہزار روپے خرچ کیا کرتے تھے، یہ ہیں اس وقت کے معلومہ اخراجات لیکن لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پلاٹوں کی صوابدیدی الاٹمنٹ کے دو ارب روپے اس کے علاوہ ہیں، اگر کوئی ایسا نظام ہوتا کہ تفصیلی اور درست اعداد و شمار مل سکتے تو ان تینوں افراد نے جو رقوم خرچ کیں وہ آسمان سے باتیں کرتی نظر آتیں۔

اسی مدت کے دوران سندھ میں پانچ سیاسی وزرائے اعلیٰ غوث علی شاہ، قائم علی شاہ، آفتاب شعبان میرانی، جام صادق علی اور مظفر حسین شاہ کا طرزِ حکومت اور مالیات کا نقشہ مندرجہ بالا افراد کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔

مشہور ادیب اور متعدد سفر ناموں کے مصنف مستنصر حسین تارڑ صاحب نے ہفتہ روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ (شمارہ یکم تا 7جون 2009) میں اپنا ایک خواب بیان کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے ’’میں دیکھا کہ میں اور میری بیگم کسی اجنبی سرزمین میں سفر کر رہے ہیں جس کی کچھ پہچان نہیں ہو رہی کہ یہ کون سا ملک ہے، یہاں باشندے کون ہیں، کون سی زبان بولتے ہیں، کچھ لوگوں کو روک کر پوچھتے ہیں کہ ہم دونوں یہاں اجنبی ہیں، آپ بتائیے یہ کون سی جگہ ہے مگر وہ لوگ بولتے نہیں، ہمیں دیکھتے چلے جاتے ہیں اور چپ رہتے ہیں، ہم دونوں حیران ہیں کہ ہم اگر سفر میں ہیں یہ تو علم ہو کہ کس ملک میں ہیں، پھر ایک صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں خود علم نہیں یہ کون سا ملک ہے جس میں ہم رہتے ہیں، ان کی صورت شکل پاکستانیوں جیسی ہے اور وہ اردو بولتے ہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ آپ پاکستانی ہیں، تو وہ کہتے ہیں ہاں، میں پاکستانی ہوں تو میں دریافت کرتا ہوں کہ آپ پاکستان سے کب آئے ہیں تو وہ حیران ہو کر کہتے ہیں کہ کون سے پاکستان سے... یہ نام تو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا، اس پر میں ان سے بحث کرنے لگتا ہوں کہ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ پاکستان سے آئے ہوں گے اور وہ لوگ عجیب سی اداسی کے ساتھ کہتے ہیں، سب لوگ یہاں اس اجنبی دیار میں ہمیں اس نام سے پکارتے ہیں لیکن ہم لوگ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان نام کا کوئی ملک بھی ہے یا کبھی تھا؟ ہمارا سفر پھر شروع ہو جاتا ہے اور ہم کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں بازار بند پڑے ہیں اور دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں بھی میں چند پاکستانیوں کو دیکھتا ہوں جو ہم سے بات نہیں کرتے، ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ یہ جو بھی ملک ہے یہاں کے باشندے ہمیں نظر کیوں نہیں آرہے، صرف کہیں کہیں پاکستانی شکل کے لوگ چل پھر رہے ہیں اور سہمے ہوئے ہیں، ادھر ادھر چوکنے ہو کر دیکھتے ہیں۔ ہم سے بات نہیں کرتے، پھر ہم ایک آہنی پنجرہ دیکھتے ہیں جس کا سامنے کا حصہ عیاں ہے اور بقیہ پنجرہ مٹی میں دبا ہوا ہے۔ اس پنجرے میں سینکڑوں لوگ قید ہیں اور وہ بھی پاکستانی شکل کے ہیں۔ یہ پاکستانی سلاخوں سے چمٹے ہم دونوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ ان کے قریب پنجرے کے باہر ایک بوڑھا شخص کھڑا ہے، ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ قید کیوں ہیں؟ تو وہ کہتا ہے یہ قید تو نہیں، یہ تو خوش قسمت ہیں کہ انہیں یہاں پناہ مل گئی ورنہ بقیہ پاکستانی تو دربدر بھٹکے ہوتے ہیں۔ میں ہراساں ہو کر اپنی بیگم سے کہتا ہوں کہ جلدی کرو، آئو ہم اس اجنبی سرزمین سے واپس اپنے پاکستان لوٹ چلیں، ہم پھر سے سفر کرنے لگتے ہیں مگر ہمیں راستہ نہیں مل رہا‘‘۔ آگے مستنصر لکھتے ہیں کہ میں نے جیسا خواب دیکھا، بیان کر دیا، حلفیہ کہتا ہوں کہ اپنی طرف سے اس میں کچھ شامل نہیں کیا، میری دعا ہے کہ اس کی تعبیر بالکل مختلف ہو۔

خوف اور وہم کی کیفیتوں کے باعث مستنصر کے خواب کے حوالے سے اپنی ذہنی صورتحال کی اتھل پتھل بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ شاید قارئین میں سے کوئی اس خواب کی ممکنہ تعبیر و تشریح کر سکے۔ البتہ یہ خواب میں صرف ایک حوالے سے شیئر کر سکتا ہوں! میں عمر کے اس وقت 73ویں یا 74ویں برس میں سانس لے رہا ہوں، صحافت کے پروفیشن کا عرصہ بھی آدھی صدی سے کچھ زیادہ ہی ہو گا، میں نے پاکستان کی تاریخ میں مظالم، ناانصافی اور سازشوں کے تناظر میں جو کچھ آن ریکارڈ مطالعہ کیا اس مطالعہ کے دوران ذہن و قلب میں جو آندھیاں چلیں ان کی تندی بیان کرنے کا یارا نہیں، جوں جوں میں مستنصر صاحب کا خواب پڑھتا اور اس پر غور کرتا ہوں مجھے پاکستان کی تاریخ کے آن ریکارڈ مظالم، ناانصافیاں اور سازشیں یاد آ جاتی ہیں۔ سارا سچ تو وہی جانتا ہے جو دلوں میں اٹھنے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے!

تازہ ترین