• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تراشے ہوئے سروے ، سب تراشے ہوئے، نسل در نسل خائن لوگوں کے گھڑے ہوئے۔ ممکن ہی نہیں کپتان کی مقبولیت کم ہو کر 18 فیصد رہ جائے، وہ تو عوامی پذیرائی کی تمام حدیں پھلانگ چکا۔ ووٹروں کے ریوڑ کو مگر کون سمجھائے؟ اے بندگان خدا ،تم پر افسوس۔
جاہل نہیں سمجھتے، رازدار درون میخانہ مگر خوب جانتے ہیں، مملکت خداداد میں فقط تین سکّے رائج ہیں اولاً سپہ سالار،ثانیاً کپتان، ثالثاً یہ فقیر۔ باقی سب چھان بورا، وعدے لٹانے والے کہ الفاظ کے سوا کوئی متاع نہیں رکھتے۔ پیشہ ور دروغ گوؤں کے سروے دیکھ کر دل کڑھتا، دماغ سلگتا، خون کھولتا ہے مگر تابکے؟ تماشے رونما ہوتے رہیں گے ،حتیٰ کہ پولنگ کا دن آ پہنچے، جب کپتان سرخرو، باقی سب پیوند خاک ہوں گے اور جنہوں نے کپتان کے حجلہ جماعت کو خیر باد کہہ کر کسی اور کے لئے پوروں میں مہندی رچالی، گوشہٴ عافیت ڈھونڈتے پھریں گے۔ برسبیل تذکرہ، عاجز کپتان کی سنگت میں شامل باجا ہوگا۔
عقل کے اندھے پوچھتے ہیں کہ کپتان کے لئے ووٹ کہاں سے آئیں گے؟ کیا تاریخ کے چوراہے پہ سبھی سو گئے؟ ناچیز پوچھتا ہے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ووٹ کہاں سے آئے تھے؟ پولنگ اسٹیشنوں پر ہُو کا عالم ، شام کو مگر بیلٹ باکس لبالب بھرے تھے اور مادرِ ملت کے مقابلے میں ایوب خان کی جیت؟ مرد معقول حمید گل کا آئی جے آئی بنوا کر پیپلز پارٹی کا راستہ کھوٹا کرنے کا اعتراف، دور نہ جائیے 2002ء کے انتخابات میں ق لیگ اور ایم ایم اے کی کامیابی۔ کیا چھ عشروں پر محیط تاریخ وطن میں کبھی چشم فلک نے تماشا کیا کہ جسے چشمِ یار کی شہ ہو، وہ الیکشن ہار جائے؟ عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جمہوریت کے مجاوروں کے اذہان پر مگر قفل پڑے ہیں، پیہم قفل ۔ گز گز بھر لمبی زبانیں مگر کان مفقود، شعور ندارد۔ بھاڑے کے ٹٹو کہتے ہیں کپتان کی جڑیں عوام میں نہیں ۔ ارے بغلولو! کیا شوکت عزیز کی جڑیں عوامی دلوں میں پیوست تھیں؟
برفیلی ہوا چنگھاڑتی تھی ، شب بھیگی ، کہرہ گرنے لگا تو عصر حاضر کے عارف، صوفی با صفا نے کوثر و تسنیم سے دھلی مشکبو گفتگو کی، ہر جملہ سحر انگیز۔ خاکسار کو مخاطب کیا، لہجے میں سوز و گداز اتر آیا، جیسے بانسری کے چھدے ہوئے سینے سے درد کے سُر نکلتے ہیں۔ فرمایا ”وزارت اطلاعات کے معاملات بہت بگڑ چکے، اسے تمہاری قیادت کی سخت ضرورت ہے“ حقیر حیران یا للعجب ! لاہور کا گورنر ہاؤس بھی تو عشروں سے کسی مرد ہنر کار کی تاک میں ہے۔ خادم معذرت کرنا ہی چاہتا تھا کہ کپتان کی تیز بیں نگاہوں نے تاڑ لیا، عاجز کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیا ، لہجے میں چہل تھی ” دن کو مل کر امور سلطنت بجا لائیں گے ، شام کو قصرِ شاہی میں دیسی مرغیاں پکا کر کھائیں گے“ منطق مثل جبل بھاری، فقیر کو رضا مندی سے گردن جھکاتے ہی بنی کہ صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہ۔ روحانی محفل اس کے بعد بھی جاری رہی، ناچیز مگر شاندار ماضی میں گم ، اندر کی محفل سج گئی ۔ عدل و انصاف کا درخشندہ مینار خلیفہ ہارون الرشید، خلیفہ نے اپنے عصر کے عظیم شاعر ابونواس کو دربار میں طلب کیا اور اپنی تازہ غزل سنا کر داد آمیز رائے مانگی۔ شاعر نے بے ساختہ آہ بھری ، پھر کف افسوس سے گردن جھکا لی ۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لینے والا خلیفہ طنز سمجھ گیا اور ابونواس کو جیل بھیج دیا۔ کوئی دن ہوئے کہ رہائی کا حکم دے کر دوبارہ شاعر کو طلب کیا۔ اب کے ابونواس خلیفہ کی نئی غزل سن کر، اٹھ کے چل دیا۔ قارون نے پوچھا”کہاں جا رہے ہو“ شاعر نے کہا ”جیل“۔ آج مستی دانش میں غرق کرائے کے دانشوروں کو مژدہ ہو، شاندار ماضی باردگر جلوہ افروز ہوا چاہتا ہے۔ فکر بیمار کے این جی اوز زدہ دانشور جو احقر کی تحریر و افکار پر کف افسوس سے گردنیں جھکاتے ہیں ، ابونواس کے انجام سے دوچار ہوں گے ۔ غلیظ افکار کے قلم کار شاہراہ دستور پر واویلا کریں گے اور کیبنٹ ڈویژن کی کھڑکی سے کوئی نظارہ کرے گا، مائل بہ سخن مگر نہ ہوگا، ہر گز نہیں ۔
بس بہت ہو چکا ، ہولناک مالی بے قاعدگیاں، امن وامان کی بدترین صورتحال۔ زرداری بندوبست کی ناؤ میں سوراخ ہو چکے ہیں اور طوفانی بادل آتش افروز ۔ لاریب! ملک انقلاب آفریں کروٹ لینے کو ہے۔ بخدا، بحر سیاست میں بپا یہ سونامی صداقت شعار کپتان کو مسند اقتدار پر بٹھا کر ہی تھمے گا۔ بے حیاؤں کے سوا سبھی متفق ہیں، انتخابات کا طبل بجنے کی دیر ہے، اب ملتان کا سید زادہ نہیں، گوجر خان کا راجہ بھی نہیں، میانوالی کا شہزادہ مانند خورشید طلوع ہو گا…اور انتخابات ہی کیوں؟ کوئی شارٹ کٹ، کوئی سادہ اور پُروقار اسلوب کیوں نہیں؟ مغرب کا بوسیدہ نظام، جس میں بندوں کو تولنے کی بجائے گننے کا نا معقول اسلوب اپنایا گیا۔چھ عشروں میں اس نامعتبر نظام کی کوکھ سے کیا نکلا؟ نواز شریف، آصف زرداری ایسے رہنما؟ عوامی نمائندگی کے سلیقے ناپید، سیاست کاری کے قرینے ندارد۔ تاریخ کا دبستان کھلا ہے ، مرد مومن ، مرد حق نے ملک کے کونے کونے سے گوہر ہائے آب چنے اور مجلس شوریٰ تخلیق فرمائی ۔ وائے حسرتا!کپتان کی چیخ و پکار کسی دل میں تڑپ پیدا کرے، کوئی اجلا اور کامران سپہ سالار قرون وسطیٰ کا جنگی لباس زیب تن کئے ، اسپ تازی کو اپنی رانوں تلے مہمیز دیتا ہوا، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے اترے اور جذبہ خیرو فلاح سے سر شار، پاکباز مجلس شوریٰ تولد کر کے عنان حکومت کپتان کے ہاتھوں میں تھما دے …اور اگر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے انتخابات کا ڈھونگ ہی مجبوری ہے تو پھر دوسری صورت بھی ہے۔ عسکری قیادت اور عدلیہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کپتان کی فی سبیل اللہ مدد کریں۔ عاصمہ جہانگیر ایسے مغرب زدہ کرداروں سے یکسر پاک ایک اُجلی نگراں حکومت اور شفاف الیکشن کمیشن کا قیام جو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی چھٹی کرا دیں۔
گلیاں ہو جانڑ سنجیاں،وچ مرزا یار پھرے
تراشے ہوئے سروے ، سب تراشے ہوئے ، نسل در نسل خائن لوگوں کے گھڑے ہوئے۔ ممکن ہی نہیں کپتان کی مقبولیت کم ہوکر 18فیصد رہ جائے، وہ تو عوامی پذیرائی کی تمام حدیں پھلانگ چکا۔ ووٹروں کے ریوڑ کو مگر کون سمجھائے؟ اے بندگان خدا، تم پر افسوس۔
اعتذار: پچھلے کالم میں کپتان کے ہمراہ ایک طاقتور ادارے کی اپنی یاترا کا احوال ارشارتاً یوں عرض کیا تھا
خوشبوئیں کپڑوں میں نا دیدہ چمن زاروں کی ہیں
ہم کہاں سے ہوکر آئے ہیں ، بتا سکتے نہیں
کاتب نے ”خوشبوئیں “ کو غلطی سے ”جوئیں“ لکھ دیا، لاحول ولا قوة۔ حد ہوتی ہے لاپروائی کی۔
تازہ ترین