• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر میں حقیقتاً کیا ہورہا ہے اسکی رپورٹنگ مشکل ، برطانوی جریدہ

کراچی (جنگ نیوز) برطانوی جریدہ اکانومسٹ کشمیر کی صورت حال پر اپنے تجزیے میں لکھتا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور اس کے ساتھ ہی مسلم آبادی کی تذلیل کرنا ، طویل عرصے سے بھارتی ہندو قوم پرستوں کی خواہش رہی ہے ، جن کی مودی قیادت کرتے ہیں۔ بھارتی پریس اور ٹیلی ویژن چینل اچھل کود رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔ جشن میں میزبان حضرات ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لئے مقابلہ کررہے ہیں۔ چند ایک ارناب سوامی کے لب ولہجے کی نقل کرتے ہیں جو لوگوں کو متاثر کرنے کےلئے بلندو تیز گفتگو کا سہارا لیتا ہے جس میں کام کی بات کم ہوتی ہے۔ کشمیر میں حقیقتاً کیا ہورہا ہے اس کی رپورٹنگ مشکل ہے۔ غیر ملکی صحافیوں کو وہاں جانے سے روک دیاگیاہے۔ کشمیری پریس پراپنی کہانی باہر لانے میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ رواں ماہ دہلی کا پریس کلب آف انڈیا دستاویزی فلم ” کشمیر کیجڈ Kashmir Caged“ نہ دکھانے کے دباو کے سامنے جھک گیا۔اس ڈاکومنٹری میںسیکورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کے ساتھ سلوک کے ثبوت تھے۔ بہادر کشمیریوں اور دیگر بھارتی صحافیوں کا شکریہ جنہوں نے غیرملکی میڈیا کوخبریں دیں جس سے نظر انداز کیے والے خطے کے متعلق کسی بھی تصویر کا حصول ممکن ہوا یعنی وہاں کی حقیقت کا ادراک ہوا۔سچ تو یہ ہے کہ پریس کی موجودہ ہم آہنگی 2014 کے مودی کے اقتدار میں اضافے کے بعد ، دھمکیوں ، پسند و ناپسند کی چھانٹی اور اس کی حمایت کے پس منظر سے ابھری ہے۔ بی جے پی پر تنقید کرنے والے دی ہندو، ٹیلی گراف جیسے اخباروں کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر حکومتی اشتہارات بند کردیے گئے، بزنس مین عوام میں تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تاریخ دن رامچندر گوہا ’کامیاب خاموشی‘ کی بات کرتے ہیں۔سن 1992 میں متعدد صنعت کاروں نے ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوںبابری مسجد کی شہادت کی مذمت میں پورے صفحات کے اشتہارات پر اپنے دستخط کیے،آج کی جنریشن بزنس مین ہے، کشمیر پر اسی طرح کے اشتہار پر دستخط کرنے سے بہت خوفزدہ ہوں گے۔ دریں اثنا ، متضاد اصولوں کے فقدان کا یہ عالم ہے، مودی کا حمایتی گوسوامی صنعت کاروں کی نئی نسل سے ہے اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا ممبر ہے ، جس کا منافع بخش کاروبار اسلحے کی فروخت ہے وہ تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔ اکانومسٹ اپنے تفصیلی تجزیے میں لکھتا ہے کہ نریندر مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے اسکی ریاستی حیثیت ختم کردی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔دونوں کو دہلی کی طرف سے کنٹرول کیا جائے گا، یہ فیصلہ لیتے ہوئے نہ تو ایک کروڑ بیس لاکھ ریاستی باشندوں سے مشورہ کیا گیا جن کی خاطر یہ اقدام اٹھانے کا دعویٰ کیا گیا،نہ ہی کسی قومی مباحثے کے بعد اس پرمناسب پارلیمانی بحث کی گئی۔ بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے ریاست کی فون لائنیں کاٹ دی گئی،انٹرنیٹ تک رسائی ختم کی گئی، تقریباً کشمیر کی پوری سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے کرفیو لگا دیا گیا۔ ایک عوامی دانشور ، پرتاپ بھنو مہتا کے مطابق ریاست کو تقسیم کرکے بھارت میں ضم کرنے کے عمل نے وادی کے مسلمان باشندوں کو شکوک و شبہات میں ڈال دیا ہے۔ کشمیریوں کو یونین ٹیریٹری کے طور پر پہلی بار بھارتی قانون سے واسطہ پڑا ہے یہ ایگزیکٹو طاقت ہے جو اظہار آزادی رائے پر قدغن نہیں لگاتا۔ سب سے بہتر جو کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ اندرا گاندھی کے 1975 کے ایمرجنسی کے انداز پر حکومت گرانے کاآئینی طریقہ نہیں جب ملک بھر میں جمہوریت معطل کردی گئی تھی۔ اس کی بحالی کے فورا بعد ہی ، لال کرشن اڈوانی ، جو مودی کی اپنی ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے شریک بانی ہیں ، انہیں ایمرجنسی کے اختتام پر 19 ماہ تک قید رکھا گیا تھا۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ آپ رینگ رہے تھے اور آپ کو صرف جھکنے کو کہا گیا تھا ۔آج رینگنے سے بہت دور بھارتی پریس اور ٹیلی ویژن چینل اچھل کود رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔
تازہ ترین