• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتسابی اداروں کی ذمہ داری ہر ملک میں یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف بدعنوانی سمیت ایسے افعال کی روک تھام کریں جن سے کسی ایک یا دوسرے شعبے میں معاملات افراتفری کی نذر ہونے کا اندیشہ ہو دوسری جانب خوف کی ایسی کیفیت بھی نہ پیدا ہونے دی جائے جس کے باعث معاشرے کے مختلف حلقوں میں عدم تحفظ کا احساس جنم لے اور معاشی و سماجی امور میں جمود کا خدشہ ہو۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جمعہ کے روز تاجر برادری کے ایک اہم وفد سے ملاقات کے دوران جو باتیں کہیں ان کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ نیب کا ادارہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے بزنس کمیونٹی کو فعال دیکھنا چاہتا ہے اور اس کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے صدر انجینئر دائود خان اچکزئی کی سربراہی میں نیب ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کے لئے آنے والے تجارتی برادری کے نمائندہ وفد سے گفتگو کے دوران جو بعض زیر گردش افواہوں کا حوالہ دیا، جن سے تاثر ملتا ہے کہ نیب تاجروں کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے مقدمات واپس ایف بی آر کو بھیج دیئے گئے ہیں اور نیب آئندہ کاروباری طبقے کے مذکورہ معاملات پر کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ یہ یقین دہانی اس کیفیت کے تناظر میں ضروری ہوگئی تھی جو بعض اقدامات یا افواہوں کے نتیجے میں تجارتی برادری اور بیورو کریسی میں پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی کیفیت کا نتیجہ تھی۔ ایک طرف یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اندرونِ ملک سرمایہ کاری منجمد سی ہو کر رہ گئی ہے، دوسری جانب بیورو کریٹس کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آ رہی تھی کہ وہ سرکاری منصوبوں کی فائلوں پر دستخط سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ جمود قومی احتساب بیورو کے حقیقی مقصد سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، اس لئے اس بات کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کہ نیب کے سربراہ نے اس باب میں تاجر برادری کو موثر طور پر اعتماد میں لیا۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین