23 ؍مارچ یوم پاکستان اور بیگم نصرت بھٹو کے یومِ ولادت کا بے حد حسین امتزاج ہے ۔پاکستان کے بارے میں مادرِ جمہوریت نے تاریخی جملے کہے ہیں:
’’میں تو نئی نسل اور نئی پود کے ذہن میں پوری قوت کیساتھ یہ بات ڈالنا چاہتی ہوں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ پاکستان ہی دراصل ہماری زندگی ہے ہم اول و آخر پاکستانی ہیں۔ نئی نسل کے ذہن میں جو یہ باتیں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ مہاجر ہیں، سندھی، بلوچ یا پٹھان ہیں۔ یہ بالکل غلط باتیں ہیں۔ ہم سب سے پہلے پاکستانی اور بعد میں کچھ اور ہیں۔
پاکستان ایک نیا ملک ہے اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنا نئی نسل کا فرض ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی کچھ بات کرتا ہے تو مجھے اس کا بہت افسوس ہوتا ہے ہمیں صرف پاکستان ، پاکستان اور پاکستان کی بات کرنی چاہئے۔
میکسیکو کانفرنس میں بھارتی وفد کی ایک رُکن خاتون نے ہمارے وفد کی ایک لڑکی سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ ’’پاکستانی‘‘ لڑکی کا جواب تھا۔ بھارتی رُکن نے وضاحت چاہی کہ پاکستان کے کس حصہ سے تعلق ہے؟ ’’پاکستان سے ‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ بھارتی وفد کی رکن نے پھر سے سوال دہرایا۔ دراصل وہ جاننا چاہتی تھی کہ یہ لڑکی پٹھان ہے، بلوچ ہے کیا ہے؟ لیکن اس بارے میں بھی ہماری لڑکی نے بڑے اعتماد سے جواب دیا ’’میں پاکستانی ہوں‘‘ اسکا جواب سن کر مجھے جومسرت ہوئی اس کا اظہار بیان سے باہر ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ نئی نسل کی سوچ یہی ہونی چاہے کہ وہ پاکستانی ہے اور پاکستانی ہونے پر اسے فخر محسوس کرنا چاہئے۔
جو کوئی اندرون ملک پوچھے یا بیرونِ ملک پوچھے یا کوئی غیرملکی پوچھے آپ کہاں کے ہیں۔ کہاں کے رہنے والے ہیں ۔ وہ صرف یہی لفظ کہیں کہ پاکستان کا رہنے والا ہوں۔‘‘یہ طویل اقتباس میں نے بیگم نصرت بھٹو سے 1975ء میں لے گئے اپنے انٹرویو سے درج کیا ہے۔ جو23 مارچ کی اصل روح کو اجاگر کرتا ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کے یومِ ولادت سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یوم جمہوریہ پاکستان کی نسبت سے بیگم صاحبہ کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور حب الوطنی کا یہی جذبہ وہ پاکستان کی نئی پود اور نئی نسل میں دیکھنے کی آرزومند تھیں اور وطن سے محبت کا رشتہ ان کی زندگی کا نصب العین ہونا چاہئے۔1975ء میں میکسیکو میں خواتین کی عالمی کانفرنس ہوئی اور بیگم نصرت بھٹو نے پاکستانی وفد کی قیادت کی تھی۔ انہیں خواتین کی اس عالمی کانفرنس میں نائب صدر منتخب کیا گیا۔ یہ بیگم صاحبہ کے علاوہ پاکستان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا کہ پاکستان کی خاتونِ اول کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں 8 مارچ خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کے کردار کی ایک طرح سے تجدید ہے۔رواں سال یومِ خواتین بڑے اہتمام سے منایا گیا۔ اور اس کی خوب تشہیر کی گئی، پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں لاہور مال روڈ کو ان چند نامور خواتین کے پوسٹر سے آراستہ کیا جنہوں نے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے مگر مقامِ افسوس ہے کہ پنجاب حکومت نے مال روڈ پر ہرکسی خاتون کی تصویریں لگا کر اس کی شخصیت کونمایاں کیا۔ لیکن مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو مکمل طور پر غائب تھیں۔ نہ ان کی کوئی تصویر اور نہ ہی ان کا نام اس ضمن میں لیا گیا نہ لکھا گیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس میں پاکستان کی خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو نائب صدر منتخب ہوئیں بلکہ خواتین کا عالمی دن منانے کی روایت بھی اسی کانفرنس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے اتنی بڑی فروگزاشت اور ناقدرشناسی درحقیقت خواتین کے عالمی دن کی نفی ہے۔ اپنے قومی مشاہیر کیساتھ یہ سلوک کرکے خودپرستی، تعصب کی سیاست روا رکھی گئی۔خواتین کے عالمی دن کی ابتدائی کانفرنس سے بیگم نصرت بھٹو کے شاندار کردار کو اس نوعیت کی متعصبانہ کارروائی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
خواتین کی عالمی کانفرنس کی بنیادی رکن کیساتھ ہی یہ حاسدانہ رویہ نہیں رکھا گیا بلکہ پاکستان کی پہلی منتخب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی بھی کوئی تصویر اس مال روڈ پر نظر نہیں آئی۔ جہاں 18اپریل 1986ء کو اسی مال روڈ پر لاکھوں کا ہجوم ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گھنٹوں کھڑا رہا تھا اور پورے پنجاب میں انکے تاریخی جلوس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تھے۔
حکومت وقت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا اقتدار محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی عظیم قربانی کا مرہونِ منت ہے انہی کی سیاسی بصیرت او رجدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں آمریت کا خاتمہ ہوا۔ انتخابات ہوئے اور پنجاب میں اس پارٹی نے حکومت بنائی جسکے سربراہ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر آنسو بہائے اور ان کے مزار پر جا کر فاتحہ خوانی بھی کی۔ لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے باک نہیں کہ یہ سیاست کا کاروبار تھا اوروہ آنسو بھی شاید سیاسی آنسو تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر عام آدمی کے دل میں آویزاں ہے اور ملک کے عوام کے دلوں میں ان کی محبت ۔ اسی طرح مادرِ جمہوریت کی جدوجہد اور ان کی شخصیت کا سحر برقرار اور ان سے محبت و عقیدت کا رشتہ قائم دوائم ہے۔
مادرِ جمہوریت بھٹو لیگیسی فائونڈیشن کی نئی کتاب کے فلیپ پر میں نے بیگم صاحبہ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
بیگم نصرت بھٹو انتہائی نفیس، شفیق، دردمند خاتون تھیں۔ جمہوری جدوجہد اور قانون کی بالادستی کی راہ میں ہر مشکل، اذیت اور مصیبت کا بہادری و جرأت سے سامنا کیا اور آمر کے آگے سرجھکانے سے انکار کرتے ہوئے واشگاف اعلان کیا کہ ہم پاکستان کیلئے نسل در نسل لڑیں گے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔
بیگم صاحبہ کی ولولہ انگیز قیادت نے مارشل لاء کے جبروتشدد کو جس ہمت اور حوصلہ سے برداشت کیا۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کی درخشاں مثال ہے۔بیگم صاحبہ غریب پرور خاتون تھیں، وہ کارکنوں کو ہی پارٹی کا سرمایہ سمجھتی تھیں اور لیڈروں کے بجائے انہیں زیادہ فوقیت دیتی تھیں۔ کارکن بھی ان سے والہانہ عقیدت و احترام رکھتے تھے، یہی ان کی سیاسی اور انسانی عظمت ہے۔ان عظیم قربانیوں کی بدولت بیگم صاحبہ کی عظمت کو ہزاروں سلام!
بیگم نصرت بھٹو اس امرپر یقین رکھتی تھیں کہ ہم اول و آخر پاکستانی ہیں اور ہمیں صرف پاکستان ،پاکستان اور پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔ خواتین کے عالمی دن پر مال روڈ پر جو منظر دیکھے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کا نام نہ لو۔