• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نوشاد نوری‘‘ بنگلہ دیش کا ایک ترقی پسند اور عوام دوست شاعر

احمد الیاس

نوشاد نوری ہندوستان کے صوبہ بہار میں21 جولائی 1926 میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صوبہ بہار کو سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس پسماند گی کے سبب جہاں بہار کے عام لوگ احساس محرومی میں مبتلا تھے وہاں صوبے کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں سیاسی بیداری کی لہربھی پھیلی ہوئی تھی۔ اسی سیاسی ماحول نے نوشاد نوری کی فکری اور شعوری احساسات کو پروان چڑھایا او ر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا ۔نوشاد نوری کا پورا نام سید محمد مصطفےٰ ہاشمی تھا لیکن دنیائے شعرو ادب اور صحافت میں وہ نوشاد نوری کے نام سے جانے پہچانے گئے۔نوشاد نے 1945 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد بی۔این۔کالج پٹنہ سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا لیکن شعر گوئی کا سلسلہ 1945 ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ اسی زمانے میں نوشاد کو انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں سے ملنے جلنے اور ان کی صحبتوں سے فیض اٹھانے کے بھرپور مواقع ملے۔ ان لوگوں میں نمایاں نام سہیل عظیم آبادی، اختر اورینوی،مختارالدین آرزو اور کلام حیدری کے ہیں۔ترقی پسند ادب سے دلچسپی کے سبب نوشاد نے کمیونسٹ پارٹی کی سرگر میوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔لیکن ان کے بارے میں یہی کہا گیا کہ وہ اپنی فکر اور نظریے کے اعتبار سے ایک ترقی پسند شاعر ضرورتھے لیکن اشتراکی نہیں تھے۔ وہ جب ہندوستان سے 1950 میں ڈھاکا آئے تھے تو ان کے تخلیقی اثاثے میں ’’ بھکاری‘‘ جیسی نظم شامل تھی جو ہندوستان میں ان کی جلا وطنی اور پاکستان میں مقبولیت کا سبب بنی۔ یہ نظم 1949 میں پنڈت جواہر لال نہرو کےدورۂ امریکہ کے خلاف کہی گئی تھی اورنوشاد نے پٹنہ کے ایک جلسۂ عام میں اسے پڑھی تھی جوکمیونسٹ پارٹی نے نہرو کے امریکی دورے کے خلاف بطوراحتجاج منعقد کیا تھا۔ بہار کی کانگریسی حکو مت نے نوشاد کی گرفتاری کا پروانہ جاری کردیا اور نوشاد کو گرفتاری سے بچنے کے لئے وطن چھوڑنا پڑا۔ ترک وطن کے بعد نوشاد نے 1950 سے 1971 تک قومی اوربین الاقوامی سیاسی پس منظر میں کئی تاریخی نظمیں کہیں ہیں جن میں باون کی لسانی تحریک کے موضوع پر ’’ موہن جو داڑو‘‘ جیسی نظم بھی شامل ہے، اس کے علاوہ 26 مارچ 1971 کے موضوع پر کہی جانے والی نظم ’’ لہو میں شرابور دن‘‘ شاید 24 سالہ پاکستانی دورکی یہ آخری اردو نظم ہے۔ جس کا اعزاز نوشاد نوری کو حاصل ہے۔ نوشاد کے دوشعری مجموعے’’رہ و رسم آشنائی‘‘ اور’’روزن دیوار‘‘ قیام بنگلہ دیش کے بعد کلکتہ اور ڈھاکا سے شائع ہوئے۔ آخری مجموعہ ان کی وفات کے بعد جولائی 2002 میں شائع ہوا۔نوشاد کی پوری زندگی تاریخ کے تین ادوار سے گزری ہے۔ ان میں برطانوی سامراج کا وہ زمانہ بھی شامل ہے جس میں بر صغیر کی تحریک آزادی کوعروج حاصل ہوا اورادبی دنیا میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل ڈالی گئی ، انہوں نے وہ دور بھی دیکھا جب برصغیر کی جغرافیائی اورسیاسی تقسیم عمل میں آئی اورجس کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان کے عوام مختلف قسم کے سیاسی اورسماجی مراحل سے گزرے اور گونا گوں مسائل سے دو چار ہوئے۔ ہندوستان میں اگرجمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوئیں اورفرقہ پرستی کو بالا دستی حاصل ہوئی تو پاکستان میں آمریت کو فروغ حاصل ہوا اوررجعت پسندی پروان چڑھی۔ بنگلہ دیش میں 1952 کی لسانی تحریک سے لے کر 1971 کی جنگ آزادی کے اختمام تک کا زمانہ بھی نوشاد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ 1971 میں جب بنگلہ دیش آزاد ہوا تو اردو شاعری اسی مقام پر لوٹ آئی جہاں سے 1947 میں اس نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ یہ سماجی انتشاراورقدروں کی پامالی کا دور تھا۔ اردو بولنے والوں کی اپنی شناخت چھن گئی تھی اور زمین سے ان کا رشتہ سب سے بڑا سماجی اورسیاسی مسئلہ بن گیاتھا۔ اس موقع پر نوشاد نے نظم ’’ قبلۂ اول ‘‘ لکھی:۔یہی مٹی جو مرا پاؤں دھرے بیٹھی ہے اس پہ سجدے کی دل آویز گھڑی آپہونچی نوشاد نوری کے یہاں جذبے کی شدت اور فکر کی رسائی کے ساتھ ساتھ گہری حسا سیت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال نظم ’’ تاریخ کا دیباچہ ‘‘ ہے۔

بیتے ہوئے ادوار کے ہم بھی نگراں ہیں

نادیدہ زمانے کی طرف ہم بھی رواں ہیں

اس دور المناک میں ہم چشم و زباں ہیں

ان کی نظموں میں غزل اورغنائیت کی پوری فضا ہوتی ہے۔ نوشاد نوری نے کچھ غزلیں کہیں ہیں لیکن وہ ان غزلوں کی اشاعت نہیں چاہتے تھے۔ان کی وفات کے تقریباً دس برس بعد ان کی ایک غیر مطبوعہ غزل ڈھاکہ میں شائع ہوئی۔ نوشاد نوری کینسرسے جنگ لڑتے لڑتے 75 سال کی عمر میں ڈھاکا کے ایک اسپتال میں دارِفانی سے کوچ کرگئے۔ 

تازہ ترین