بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کو ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ سابق حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی سابق حکومتوں کو صوبے کے مسائل کی وجہ گردانتی ہے لیکن تاحال بلوچستان کو ایسا مردِ آہن حکمران نہیں ملا جو اس بوسیدہ نعرے کو ہمیشہ کیلئے دفن کرتے ہوئے تبدیلی کی طرف قدم بڑھائے اور وہ کر دکھائے کہ روایت بدل جائے۔ صوبے میں اگر تبدیلی آئی ہے تو اخباری حد تک۔ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کو سب سے زیادہ حکمران طبقے نے نقصان پہنچایا ہے، وہ چاہے جس بھی نظریے یا سوچ کے ساتھ اقتدار میں آئے، انہوں نے محض گھسٹتے ہوئے اپنا ٹائم پورا کیا۔ نہ وزارت کی سطح پر اور نہ ہی اعلیٰ سطح پر کسی محکمہ کو از سر نو تعمیر کیا گیا۔ حکمران چاہے سوشل میڈیا استعمال کرنے والا آیا یا قبائلی روایات کو اہمیت دینے والا، دونوں حکومتی معاملات چلانے میں شش و پنج کے شکار نظر آئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں سرکاری محکمے عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے ملازمین کے مفاد کیلئے زیادہ کام کرتے ہیں۔ محکمہ لائیو اسٹاک ان محکموں میں سے ایک ہے جس کی از سر نو نظر تعمیر و تشکیل تاحال نہ ہو سکی ہے۔
محکمہ لائیو اسٹاک کی کہانی کچھ حیران کن ہے کہ جن حیوانات کے لئے یہ محکمہ معرض وجود میں لایا گیا، ان کے علاج معالجے کے لئے، یعنی پورے صوبے کے جانوروں کی ادویات کے لئے سالانہ دو کروڑ روپے مختص ہیں۔ یعنی اس محکمے میں جانوروں کی بقا کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے ملازمین جن کی تعداد 6830ہے، کی تنخواہوں کی مد میں صوبائی حکومت محکمہ کو سالانہ 4ارب روپے ادا کرتی ہے۔ یعنی محکمہ کو جانوروں کے علاج معالجہ کے بجائے انسانوں کا ذریعہ روزگار بنا دیا گیا ہے۔ انگریز کے متعارف کردہ کیمل مین یعنی اونٹ چرانے والے کو آج بھی بھرتی کیا جا رہا ہے حالانکہ اس کی اب ضرورت ہی نہیں۔ 4ارب روپے سالانہ تنخواہیں لینے والے ملازمین نے 2006کے بعد سے تاحال جانور شماری نہیں کی، یعنی محکمے میں تعینات انسانوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ جن جانوروں کے عوض اپنی روزی روٹی حاصل کر رہے ہیں ان کی تعداد کیا ہے۔ ان میں بیمار و معذور کتنے ہیں؟ بلوچستان میں المیہ یہی ہے کہ یہاں سیاستدانوں اور مقامی بیورو کریسی، دونوں نے محکموں کو اس انداز میں نہیں دیکھا جس کا تقاضا یہ پسماندہ صوبہ کرتا ہے۔ جو بجٹ محکموں کو مل رہا ہے، چاہے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو، اس کو ہر صورت خرچ کرنا ہے۔ کبھی بھی ہم نے بطور حکومت یا صوبہ یہ محسوس نہیں کیا کہ جس محمکے میں سالانہ 4ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، جس کو 9کروڑ روپے جمع کرنے کا ٹارگٹ حکومت نے دیا ہے جبکہ صرف 6کروڑ روپے محکمہ دے رہا ہے، کیا اس پر نظر ثانی، اس کی تشکیلِ نو کی ضرورت نہیں؟ کیا دنیا کا کوئی ذی شعور شخص اتنا نقصان دہ کاروبار کرنے کو تیار ہوگا؟
بدقسمتی سے یہ صوبہ اس پھل دار درخت کی مانند ہے جس کو آج تک کوئی صحیح دیکھ بھال کرنے والا مالک میسر نہیں آیا۔ جو اس کو پانی دیتا اور اس کا خیال رکھتا۔ جس کو بھی دیکھ بھال کی ذمہ داری ملی، اس نے اس کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی اور یہاں کے حاکم اس کو کاٹ کر اپنے فائدے کی خاطر اس کو اس کی جگہ سے اکھاڑ کر اپنے ضلع میں لے کر جانا چاہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کا خیال رکھا جاتا، اس کو پانی دیا جاتا، اس سے حاصل ہونے والے فروٹ کو منصفانہ طور پر تمام اضلاع کے درمیان تقسیم کیا جاتا۔ یہاں جو بھی اقتدار میں آیا، اس نے اپنے اضلاع میں اس پورے درخت کو توڑ کر لے جانا چاہا۔ اگر اس درخت سے حاصل ہونے والے فروٹ کو صحیح انداز میں تقسیم کیا جائے تو پورا صوبہ کیا، بلکہ پورا ملک اس کا فروٹ کھا سکتا ہے مگر اس حرص کا کیا کیا جائے جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور ہم ایسی قابلِ رحم صورتِ حال سے دو چار ہیں۔ بلوچستان میں برسرِ اقتدار طبقے نے ہمیشہ تین ایجنڈوں پر کام کیا۔ پہلے زیادہ سے زیادہ ڈویلپمنٹ فنڈز اپنے علاقے کے لئے حاصل کرنا جس کا وہ خود ٹھیکہ لے یا اپنے کسی رشتہ دار کے نام پر، دوسرا ایجنڈا منافع بخش پوسٹوں پر من پسند افراد کو تعینات کرکے ان سے پیسے لینا۔ جبکہ تیسرا ایجنڈا اپنے محکمے میں زیادہ سے زیادہ غیر ضروری اسامیاں پیدا کرنا اور ان پر اپنے علاقے کے لوگوں کو بھرتی کرانے کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع کی نوکریاں فروخت کرنا۔
یہاں اکثر محکموں کے انتظامی سربراہ سیکریٹریز کی جانب سے محکموں میں غیر ضروری بھرتیوں کے عمل میں کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی، نہ ہی کسی برسر اقتدار شخص کو خیال آیا کہ یہ ہمارا اپنا صوبہ ہے، ہم اس پہ ظلم کرنے جا رہے ہیں بلکہ بطور آلہ کار بیورو کریسی نے بھی صوبے کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہر ممکن مدد کی۔ اگر کبھی کہیں نئی اسامیوں کی ضرورت پیش آئی تو جس جس کے پاس فائل گئی، اس نے ان اسامیوں میں اپنا حصہ بھی شامل کر دیا اور یوں پورا صوبہ ایک منڈی بن گیا جہاں حکومتی معاملات نے آڑھت کی شکل اختیار کرلی اور سودے دھڑیوں کی شکل میں ہونے لگے۔ عوام معیشت بہتر بنانے میں ریاست کے مددگار ہوتے ہیں جبکہ ہم ان کو معیشت پر بوجھ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس وقت بلوچستان حکومتی بے اعتنائی کی بدترین مثال ہے جو متقاضی کے تمام محکموں کی ازسر نو تشکیل دی جائے اور محکموں کی کارکردگی اور ان کے بجٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تاکہ عوام کو حقیقی معنوں میں ان محکموں کا فائدہ پہنچ سکے۔