• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان۔ مانچسٹر
ہر شخص کسی نہ کسی حد تک عادتوں کا غلام ہوتا ہے۔آپ روزمرہ زندگی میں ڈسپلن کے قائل ہیں۔صبح سے لے کر رات تک سارے کاموں کو باقاعدگی سے کرتے ہیں۔کچھ عادات ایسی ہیں جن پر فخر کرتے ہیں. اور روزانہ کی بنیاد پر ان کو کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ مارننگ واک کے عادی ہیں۔ تو صبح اٹھتے آپ کا ذہن آپ کو خبردار کر دیتا ہے کہ اٹھو اور واک کرنےجاؤ ۔زیادہ تر ہمارے روزمرہ کے ایکشن آٹومیٹک ہوتے ہیں۔عادات مائنڈسیٹ ہوتی ہیں ۔خود بخودروٹین ورک ہوتا رہتا ہے۔اگر آپ کی واک کا راستہ بھی مخصوص ہو تو آپ بلا سوچے سمجھے چلتے جاتے ہیں مثلا سیدھے ہاتھ جانا ہےیا الٹے ہاتھ کو مڑنا ہے وغیرہ وغیرہ۔اگر اس قبیل کی دیگر عادات ہیں تو کالم کو آخر تک پڑھیں اور پھرسوچیں کہ کون سی اچھی عادات اپنے رکھنی ہیں اور کون سی عادت کو چھوڑنے میں عافیت رہے گی۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے سمجھنا بہت ضروری ہے کہ عادات دماغ کے جس حصے میں پختہ ہوتی ہیں اس کا نام basal ganglia ہے۔جب آپ ایک ہی طرح perform یاحرکت کرتے ہیں تو جسمانی حرکت ذہن کے اس حصے سے جڑ جاتی ہے اور ہمیشہ اسی حرکت سے دماغ کا یہی خاص حصہ متحرک ہو جاتا ہے ۔تو ہمارے جسم اور ذہن کا بیسل گینگلیا ہماری عادات بناتا ہے ۔یہ حصہ آٹو پائلٹ کا کام کرتا ہے۔اس کے علاوہ دماغ کے پاس حیرت انگیز nerve cells ہیں جن کو neuruplasticity کہتے ہیں دن بھر جب نئی سچویشن سے واسطہ پڑتا ہے تو یہ نیورو پلاسٹی ہمیں صلاح مشورہ دیتی ہے-ہم آج عادات اور نئی چیزوں کو سیکھنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو دماغ کے انہی دو حصوں سمجھیں گے۔گو عادات یا روٹین ہونا کسی حد تک بہت ضروری ہوتا ہے۔دن بھر کے کاموں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔یہ محض ایک فائدہ ہے۔اس سے آپ برین کو فیصلہ کرنے کے لئے استعمال نہیں کر رہے ۔ مثال کے طور پر عادت سے ہٹ کر مختلف جگہ پر سیرکرنے کے لیے جاتے ہیں یا مختلف روٹس پر جاتے ہیں تو نہ صرف منظر بدلتا ہے بلکہ دماغ کو بھی اسائنمنٹ ملی ہوتی ہے اور وہ ایکٹیو ہوتا ہے۔جبکہ ایک سی صورت حال میں آپ مکینیکل انداز میں عمل کرتے چلے جاتے ہیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ کافی شاپ جاتے ہوئے بھی مختلف راستے سے جائیں۔اس طرح مختلف آوازیں سنیں گے، مختلف لوگ دیکھیں گے۔جب ہم روٹین کے پابند ہوتے ہیں تو ہم zombie بن جاتے ہیں۔ زندگی کے دروازے کھولیے اور اپنے ہورائزن کو بڑا کریں۔زندگی میں غلام بن کر نہ رہیں اور زندگی اپنے اوپر تنگ نہ کریں۔ عمرکو لے کرنہ بیٹھ جائیں کہ آپ یہ کر سکتے ہیں اور وہ نہیں کر سکتے۔سیکھنے کے عمل سے زندگی پھولوں کے گلدستے کی طرح سجی رہتی ہے ۔رنگارنگ تجربہ سے وہ کچھ سیکھا جاسکتا ہے جو یونیورسٹی میں بڑی سے بڑی فیس دے کر بھی نہیں سیکھ سکتے ہیں۔روٹین ایک انتہائی پسندیدہ لفظ ہے لیکن جدید نیورو سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ دماغ نئےنئے کاموں کا متلاشی رہتا ہے۔اکثر ہوتا ہے کہ مستقل بیٹھ کر کسی پروجیکٹ پر کام کر رہے ہوتے ہیں تو ایک ایسا وقت آتا ہے کہ آپ سے کام نہیں ہوتا اور آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ایسے میں اگر کچھ دیر کے لئے آپ وہ کام چھوڑ دے اور کوئی بالکل الگ سا کام کرنے لگیں تو واپس آکر اسی کام کو بہتر انداز پرکرسکتےہیں۔جدید ریسرچ کے مطابق جب آپ لوکیشن بدلتے ہیں اور کام کو مختلف طرح سے کرتے ہیں تو دماغ کے حصے ہپوکیمپس کو متحرک رکھتے ہیں جو ہماری برین میں لمبی مدت کی یادوں کو جمع کرتا ہے سو زندگی کے لمحات کوتفصیل سے یاد رکھتا ہے-Benedict اپنی کتاب How we learn میں لکھتا ہےChanging your work environment and daily movements, taking a different route to your work for example, can maximize the brains effectiveness.عادات سے ہٹ کر کام کر رہے ہوتے ہیں تو برین میں نیورو پلاسٹیسٹی کی ایکسرسائز ہو رہی ہوتی ہے جس سے دماغ کی صلاحیت بڑھتی ہے ہے تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔مسائل کو حل کرنا آسان ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے۔ جتنی مشق دماغ سے لی جائے گی جتنے نظارہ اور معلومات دماغ میں موجود ہوں گے ۔ اتنا ہی آپس میں واقعات کا لنک جڑا رہے گا اور دماغ تیز رہے گا ۔اکثر ہم جو دیکھتے ہیں اس پر اتنا اعتبار کر لیتے ہیں کہ اس میں بہتری کی توقع اورامکان کو مسترد کر دیتے ہیں۔سینہ بہ چلی ہوئی روایتیں ہمیشہ صحیح نہیں ہوتیں۔ہم ایک ہی کا کام کرنے کو وفاداری کا نام دے دیتے ہیں جب کہ زندگی میں آگے بڑھناچاہیے اپنا دائرہ کار اپنی ذات اور اپنے دماغ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لئے بعض اوقات روٹین کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف روزمرہ عادات نہیں بلکہ زندگی کو بدل دیتی سکتی ہیں۔ بچہ پہلے رینگتا ہے پھر چلنا سکتا ہے اور پھر دوڑنے لگتا ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے چند عادتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے، کمفرٹ زون سے نکلنا پڑتا ہے۔ اپنی سوچوں کو بدل کر اپنی دنیا بدل سکتے ہیں۔ کام اسی وقت تک ناممکن نظر آتا ہے جب تک اسے کیا نہ جائے۔
تازہ ترین