پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں ماسٹر عنایت حسین کی آمد سے فلمی موسیقی کے درخشاں دور کا آغاز ہوتا ہے۔ 1949ء میں فلم ہچکولے ریلیز ہوئی، جس کی موسیقی انہوں نے ترتیب دی۔ اس فلم کا میں ان کا تخلیق کردہ ایک گیت جسے گلوکار علی بخش ظہور نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا تھا، جس کے بول ہیں۔ ؎میں پیار کا دیا جلاتا ہوں تو چپکے چپکے آجا؎ یہ ابتدائی پاکستانی فلمی گیتوں میں مقبول ترین نغمہ تھا، جس کی گونج کراچی سے راس کماری تک سنائی دی۔ ہندوستان کے سب سے بڑے موسیقار نوشاد صاحب نے ایک خط کے ذریعے ماسٹر عنایت حسین کے اس گیت کی بہت تعریف کی۔ یہ مقبول گانا اداکار سدھیر پر فلمایا گیا تھا۔ اس مقبول گیت کے موسیقار 1916ء میں لاہور کے اندرون شہر بھاٹی گیٹ کے ایک محلے میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ فن موسیقی میں اپنا ایک نام رکھتا تھا۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے ماموں استاد بہار بخش سے حاصل کی اس خاندان سے نامور موسیقار تعلق رکھتے تھے، جن میں عاشق حسین، اختر حسین اکیاں، ماسٹر عبداللہ اور ایم اشرف شامل ہیں۔
ماسٹر عنایت حسین نے فلمی موسیقی کا آغاز 1946ء میں لاہور میں بننے والی پنجابی فلم کملی سے کیا۔ اپنے ابتدائی کیریئر میں انہوں نے گلوکاری اور اداکاری بھی کی۔ بمبئی اور کلکتہ میں مختلف تھیٹر کمپنیوں کے توسط سے وہ وابستہ رہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک فلم میں ہیرو بھی آئے۔
فلمی موسیقی کا جب ذکر ہوتا ہے، تو ماسٹر عنایت حسین مرحوم کا نام و کام اپنے لاتعداد رسیلے، سریلے اور سپرہٹ گیتوں کے ساتھ سماعتوں سے ٹکراتے ہی رس گھولنے لگتے ہیں۔ اپنے پورے کیریئر میں انہوں نے 58 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں پنجابی فلموں کی تعداد 16 ہے۔ وہ اپنے دور کے ایک ایسے موسیقار تھے، جو کبھی بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوتے تھے، حالاں کہ گانا کمپوزنگ کے بعد سپرہٹ بھی ہوجاتا تھا۔ فلم بھی کام یاب ہوجاتی تھی، مگر ان کی بے تابی، بے چینی اور پچھتاوا اپنی جگہ برقرار رہتا۔ انارکلی، عذرا، نائلہ جیسی فلموں کے سپرہٹ گانے تخلیق کرنے کے باوجود وہ اپنے کام سے مطمئن نہ تھے۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی انور کمال پاشا کی فلم ’’گمنام‘‘ کے گیتوں نے پورے برصغیر میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے تھے۔ خصوصاً ’’لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘‘؎ جب اس گیت کی آواز بمبئی تک پہنچی تو استاد خان صاحب امیر خان (اندور والے) خصوصی طور پر ماسٹر عنایت حسین سے ملنے لاہور آئے، اس گیت کی دُھن بنانے پر انہیں گلے لگایا اور کہا ’’میاں برخوردار یہ کیا بنادیا تم نے، میں حیران ہوکر ہندوستان سے صرف تمہیں دیکھنے آیا ہوں‘‘۔
فنِ موسیقی کے محقق پروفیسر سلیم الرحمن اپنی تصنیف ’’صدا آتی ہے‘‘ میں ایک جگہ ماسٹر عنایت حسین کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’ماسٹر جی نے اپنے نغمات و غزلیات کو موثر اور مضبوط تاثر کا حامل بنانے کے لیے راگ درباری، مالکونس، بھیرویں، بہار، پہاڑی، جے جے دتی اور ایمن کو بڑے ہی سلیقے سے برتا ہےاور کئی دُھنوں میں راگوں کی آمیزش یعنی مشرمیل کے استعمال سے بھی اپنی فنی صلاحیتوں سے بھرپور کام لیا ہے ،سازندوں سے ستار نوازی اور لے نوازی کا حق ادا کروایا ہے۔فلم میں موضوع اور منظر نامے کی ضرورت کے مطابق بعض فلموں کے نغمات کو بڑی ہنرمندی سے عربی اور ایرانی مزامیر کے استعمال سے چہار چند کیا ہے اور نغمے کی مقصدیت کی روح کو اجاگر کردیا ہے۔نغموں اور غزلوں کو سچویشن کے تقاضے کے مطابق یُوں کمپوز کیا ہے کہ راگوں کو خوابیدہ اور بیدار دونوں ہی اسالیب و آہنگ سے استعمال کیا ہے، کبھی خوابیدہ بھیرویں ہے اور کبھی چڑھتی ہوئی درباری کا تیز آہنگ ہے۔ماسٹر عنایت حسین کے کمپوز کردہ نغمات کی تعداد بے شمار ہے، جن کا تذکرہ کرنا اس مختصر تحریر میں ناممکن ہے۔فنِ موسیقی کا یہ آفتاب 24؍مارچ 1993ء بمطابق 30؍رمضان چاند رات کو غروب ہوا۔