• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز

ملکی تاریخ میں پہلی بار خیبرپختونخوا میں شامل ہونے والے قبائلی اضلاع سے منتخب ہونیوالے صوبائی اسمبلی کے 19نومنتخب اراکین نے حلف اٹھاکر بالآخر ووٹ کے ذرئیے صوبائی اسمبلی تک پہنچنے کا طویل صبر آزما سفر مکمل کرلیا ہے ۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکرمشتاق غنی نے قبائلی اضلاع سے نومنتخب اراکین سے حلف لیا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی اسمبلی تک پہنچنے کے لئے قبائلی عوام نے نہ صرف بے پناہ قربانیاں دی ہیں بلکہ ایک طویل اور صبر آزما سفر طے کیا ہے یہی وجہ کہ ۔قبائلی اضلاع سے ان نو منتخب ارکان اسمبلی سے ماضی کے ہر دور میں حکمرانوں کی جانب سے نظرانداز کئے جانے والے ان انتہائی پسماندہ قبائلی اضلاع کے غریب عوام نے بڑی توقعات اور بے پناہ اُمیدیں وابستہ کررکھی ہیں ۔ اس سے قبل نومنتخب قبائلی اراکین سے حلف لینے کیلئے 5اگست کو طلب کردہ اجلاس کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر ملتوی کیا گیا تھا ۔ تاہم گذشتہ دنوں اپوزیشن کی جانب سے جع کرائے جانے والے 36اراکین کی درخواست پر طلب کئے گئے اجلاس میں نومنتخب قبائلی اراکین نے حلف اٹھالیا اور اب یہ اراکین باضابطہ طورپر صوبائی اسمبلی کے اراکین ہیں جس کے بعد ان کا اصل امتحان بھی شروع ہوچکاہے کہ انہوں نے اپنے اپنے حلقے کے عوام سے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے اور دعوے کئے تھے اسے کیسے پوراکریں گے ۔قبائلی اضلاع سے کامیاب ہو نے والے ایم پی اے کی حلف برداری کے بعد سابقہ قبائلی علاقے اب باضابطہ طورپر صوبے کا حصہ بن کر ان اضلاع سے منتخب ارکان اسمبلی یقینا اپنے حلقے کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھائیں گے۔ نومنتخب قبائلی ارکان اسمبلی کے لئے ایم پی اے ہاسٹل میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سرکاری گیسٹ ہاوس میں جگہ دی گئی ہے 20جولائی کو قبائلی اضلاع میں ہونیوالے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے 5 ،جے یو آئی کے 3 ، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کا ایک ایک رکن اسمبلی کی کامیانی کے علاوہ 6نشستوں پر آذاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔آزاد امیدواروں میں 3امیدوارں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے 2 ارکان اسمبلی حکمران جماعت پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ ایک رکن اسمبلی میر کلام آخری نے اطلاعات تک اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھی ہے۔ قبائلی اضلاع سے کامیاب ہوکر آنیوالے ان ارکان اسمبلی کیلئے ایوان میں اپنے اپنے علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا اور مسائل حل کراناکسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا ان قبائلی اضلاع سے تقریباً تمام منتخب ارکان صوبائی اسمبلی پہلی بار پارلیمنٹ کا حصہ بن رہے ہیں صوبائی اسمبلی کی وساطت سے قانون سازی میں پہلی بار حصہ لے رہے ہیں موجودہ دور حکومت میں اپوزیشن سمیت بعض حکومتی پارٹی کے ارکان بھی ترقیاتی فنڈز کے حصول کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ایسے میں قبائلی اضلاع سے کامیاب ہونیوالے ارکان اسمبلی باالخصوص اپوزیشن اور آزاد کامیاب ہونیوالے کو بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ تاہم وہ بہتر انداز میں علاقے اور اپنے حلقہ نیابت کے مسائل کی نشاندھی کر سکتے ہیں۔حلف اٹھانے والے قبائلی اراکین اسمبلی میں باجوڑ سے تعلق رکھنے والے انور زیب، اجمل خان، سراج الدین، مومند سے تعلق رکھنے والے نثار محمد خان، عباس الرحمن، خیبر کے شفیق الرحمن، بلاول آفریدی، محمد شفیق، کرم سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض، اقبال اورکزئی سے تعلق رکھنے والے غازی غزن جمال، شمالی وزیرستان کے اقبال خان، میرکلام خان اور جنوبی وزیرستان کے حسام الدین، نصیر اللہ اور سابقہ ایف آرز پر مشتمل ایک حلقے سے منتخب ہونے والے محمد شعیب کے علاوہ مخصوص نشستوں پرآنے والی خاتون قبائلی رکن صوبائی اسمبلی انیتہ محسود اور نعیمہ کشور جبکہ اقلیتی رکن ولسن وزیر شامل ہیں۔حلف اٹھانے کے بعد قبائلی اضلاع سے منتخب اراکین اسمبلی نے باری باری اپنے علاقوں کے مسائل اور قبائلی اضلاع کی محرومیوں پرمختصراظہار خیال کیا۔اجلاس جبکہ حکومت نے بھی قبائلی اضلاع سے کامیاب ہونیوالے اراکین اسمبلی کو ایوان میں آنے پر خوش آمدید کہا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختو نخوا محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے بھی نو منتخب قبائلی ارکان اسمبلی کو بات کرنے کا موقع فراہم کرنے کی درخواست کی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع سے منتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا جائے کیونکہ انہیں 70سال تک بولنے اور اپنے لوگوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے سے روکے رکھا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے قبائلی اراکین کو یقین دلایا کہ انہیں دوسرے ممبران کی نسبت زیادہ ترقیاتی فنڈز دئیے جائیں گے جبکہ صوبائی حکومت پہلے سے بھی قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی اور بحالی پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جو قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی اور وہاں کے عوام کے مسائل کے حل میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہے۔جس کی واضح مثالی الیکشن سے قبل بھی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے مختلف قبائلی اضلاع کے نہ صرف دورے کئے بلکہ تاریخ میں پہلی بار صوبائی کابینہ کے اجلاس قبائلی اضلا ع میں منعقد کئے گئے جبکہ الیکشن کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ترقیاتی سکیموں کے اعلانات روکنے کے ساتھ ساتھ صحت کارڈ کی تقسیم اور نوجوانوں کیلئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی روک دیا گیا تھالیکن الیکشن کے بعد جب ارکان اسمبلی نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھالیا وزیر اعلیٰ نے پھر سے قبائلی اضلاع کے دورے شروع کردیئے ہیں۔اور اس سلسلے کا پہلا دورہ وزیراعلیٰ نے ضلع مہمند کا کیا۔وزیر اعلیٰ نے دورہ مہمند کے دوران انہوں نے نہ صرف پانی بجلی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا بلکہ پاک افغان تجارت بڑھانے کے لئے دو بڑی بڑی سڑکوںکی تعمیر کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا۔وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر میں132 کے وی گرڈ سٹیشن کا افتتاح بھی کیا ہے۔ اس افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گرڈ سٹیشن سے مہمند ماربل انڈسٹریل سٹی کو بلا تعطل بجلی فراہم ہو گی جس سے ماربل کی صنعت کو تیزی سے فروغ ملے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ مچنئی گرڈ سٹیشن کا منصوبہ 467 ملین روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے جو 52 میگاواٹ بجلی کی ترسیل کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مہمندماربل انڈسٹریل سٹی قبائلی اضلاع کی ترقی اور معاشی استحکام کیلئے اہم سنگ میل ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین