• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی حکمران اور وزیراعظم بے شک مودی کو ہٹلر کہیں لیکن اس خطے کی تاریخ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مودی کے رول ماڈل دو ہیں، اول اندرا گاندھی دوم اسرائیل، اگرچہ آج کانگریس اور راہول گاندھی مودی کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن اگر آپ اندرا گاندھی کے آپریشن بلیو اسٹار کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ مودی تقریباً اندرا کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور اس کے سامنے اندرا کی Success Storyیعنی کامیابی کی مثال موجود ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آج مودی اور بی جے پی کی قوت کا ایک بڑا ذریعہ آر ایس ایس ہے لیکن 1984میں اسی آر ایس ایس نے اپنے انتہا پسندانہ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اندرا کی حمایت کی تھی اور بلیو اسٹار آپریشن کرنے پر اندرا کے حق میں نعرے لگائے تھے۔ بلیو اسٹار آپریشن کے پس پردہ بھی کوئی چار ماہ کا غور و فکر اور طے شدہ حکمت عملی کارفرما تھا جس کا مقصد نہ صرف سکھوں کی تحریکِ خالصتان یعنی تحریک آزادی یا تحریک خود مختاری کو کچلنا تھا بلکہ سکھ قیادت کا بھی خاتمہ کرنا مقصود تھا تاکہ آئندہ بھارت میں سکھ سر نہ اٹھا سکیں اور ہندو غلامی کو ذہنی طور پر قبول کرلیں۔ گولڈن ٹیمپل پر یکم جون 1984ء کو آرمی ایکشن کے دوران بھنڈرانوالا نے انٹرویو میں یہی کہا تھا ’’سکھ بھارت میں نہیں رہ سکتے۔ سکھ بھارت میں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیں ان غلامی کی زنجیروں کو بہرحال توڑنا ہے‘‘۔ (بحوالہ(The Sikhs in history by Sangat Singh p 400 ۔

جون 1984ء میں جب اندرا نے گولڈن ٹیمپل امرتسر پر فوجی ایکشن کیا اور کئی دن تک امرتسر میں کرفیو لگائے رکھا تو اس آرمی ایکشن کے دوران سینکڑوں سکھ مارے گئے جن میں ان کا لیڈر بھنڈرانوالا بھی شامل تھا۔ گولڈن ٹیمپل جس کی بنیاد ولی اللہ اور عظیم روحانی شخصیت حضرت میاں میرؒ نے رکھی تھی، سکھوں کا نہایت مقدس مقام ہے جس کی اندرا کے ہاتھوں بے حرمتی کا داغ ہر سکھ کے دل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ امرتسر میں کرفیو اور سکھوں کے قتل عام کو جنرل ڈائر کے قتل عام سے تشبیہ دی گئی اور ان تمام تر مظالم کی بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیموں نے حمایت کی جو سیاسی حوالے سے اندرا کی مخالف تھیں۔ اندرا وقتی طور پر سکھوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں کامیاب ہوگئی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، عالمی اداروں، عالمی رائے عامہ اور طاقتور ممالک کو تو اندرا کا ہاتھ پکڑنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن سکھوں نے خود ہی اپنے قومی خون کا بدلہ لے لیا اور اندرا کو اس کے اپنے سکھ محافظوں نے اسی طرح گولیوں سے چھلنی کردیا جس طرح اندرا کی فوج نے بھنڈرانوالا اور دوسرے سکھوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کتاب کے مطابق اس وقت کوئی ایک لاکھ سے زیادہ سکھ گرفتار ہوئے اور کشمیریوں کی مانند جیلوں میں سڑتے رہے۔ بالآخر دنیا نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر سکھوں کے قتل عام سے سمجھوتہ کر لیا۔ کشمیر کی خود مختاری اور آئین کے سیکشن 370کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت بھارت کی قوم پرست اور انتہا پسند آبادی کو خارِ مغیلاں کی مانند چبھتی تھی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہندوتوا اور مذہبی منافرت کی لہر نے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اسی لہر کا فائدہ اٹھا کر مودی نے کشمیر کی فتح کا ہیرا اپنے تاج میں سجانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ بھارتی پارلیمان نے کشمیر کو ایک صوبہ قرار دے کر اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لئے حل کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے نجات حاصل کرنے کی سعی کی ہے۔ دنیا کے طاقتور جمہوری ممالک پارلیمان کی مقتدرہ حیثیت کے پیش نظر بھارتی پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم پر اعتراض نہیں کر سکتے۔ مودی کو یقین ہے کہ موجودہ احتجاج، شور و غوغا، پاکستانی قوم کا ابلتا خون اور دھمکیاں وقت کے ساتھ مدہم پڑ جائیں گی اور وہ اندرا کی مانند کشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ سرحدوں پر فائرنگ ہوتی رہے گی لیکن جنگ کا خطرہ مول نہیں لیا جائے گا۔ مودی کو اپنی اس مہم جوئی میں کس قدر اندرونی سیاسی حمایت حاصل ہے اس کا اندازہ ایک وڈیو سے کیجئے جو مجھے ایک مہربان نے امریکہ سے بھجوائی ہے۔ مودی یو اے ای کا اعلیٰ ترین ایوارڈ حاصل کرنے گیا تو یو اے ای کے حکمران سے ’’بھائی‘‘ اور ’’اپنے دوسرے گھر‘‘ آنے کی خوشخبری سن کر ابوظہبی میں ہندو ارب پتیوں سے ملاقات کی۔ اس میٹنگ میں موجود بیس ہندو ارب پتی حضرات نے کھل کر مودی کی کشمیر کے حوالے سے حمایت کی اور کشمیر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا۔ سیاستدان کا پہلا اور آخری مقصد ووٹ حاصل کرنا اور سیاسی حمایت میں توسیع و استحکام ہوتا ہے۔ یہ مقصد حاصل ہو جائے اور اکانومی مضبوط ہو تو وہ عالمی رائے عامہ سے درگز ر کی پالیسی اپناتا ہے اور دھیمے انداز سے اہداف حاصل کرتا ہے۔ اندرا نے بھی یہی کیا تھا اور مودی بھی اسی راہ پر چل رہا ہے۔ مسلم امہ ہو یا کچھ دوست ممالک، سب زبانی جمع خرچ کی پالیسی اپناتے اور گفتگو سے مسئلہ حل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں حالانکہ ان کو اچھی طرح علم ہے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت سے ہرگز حل نہیں ہو سکتا۔

اندرا کے بعد مودی کا دوسرا رول ماڈل اسرائیل ہے جو سات دہائیوں سے فلسطینی مسلمانوں کے سینے میں خنجر گھوپنے بیٹھا ہے۔ ماضی میں مسلمان ممالک کا اسرائیل کے خلاف اتحاد اور جنگیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں بلکہ اسے مزید علاقے ہتھیانے کا باعث بنیں۔ اسرائیل کے بعد بھارت بھی امریکہ کو پیارا ہے اور اس کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ امریکہ ہو یا دولت مند مسلمان ممالک، سب نے بھارت میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ہندو اپنی کاروباری اور تعلیمی صلاحیت کے سبب ان ممالک میں ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک مذہبی حوالے سے یہودیوں کو پسند نہیں کرتے اور اسرائیل پر فلسطین کے حوالے سے تنقید بھی کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی بھی اسرائیل کا راستہ نہیں روکتا۔ ان اقوام کو یہودیت کے برعکس ہندو دھرم سے کوئی شکایت بھی نہیں، چنانچہ یہ توقع کرنا کہ مودی یا بھارت پر عالمی رائے عامہ اور ان ممالک کا دبائو ڈال کر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی تبدیل کروائی جا سکتی ہے، میرے نزدیک خیالِ خام ہے۔ ان تمام تر تلخ حقائق کے باوجود پاکستان کو اپنی کوشش اور جدوجہد مستقل مزاجی سے جاری رکھنا چاہئے۔ کشمیری بھائیوں کی حمایت بہرحال جاری رکھنا ہوگی۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے اسے نہ ڈوگرہ فوج دبا سکی اور نہ ہی بھارتی فوج ختم کر سکے گی۔ کشمیریوں کا جذبۂ حریت بغاوت کا روپ دھار چکا ہے اور یہ بغاوت فلسطینی مسلمانوں کی مانند جاری و ساری رہے گی۔ جدوجہد ظلم و ستم اور شہادتیں دنیا بھر میں مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہیں خدا جانے یہ سلسلہ کب رکے گا۔

تازہ ترین