• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اراضی اور نہری پانی کا تنازعہ خوں ریز تصادم میں تبدیل

ضلع گھوٹکی میں قبائلی و برادریوں کے درمیان تنازعات معمول کی بات ہیں جو معمولی باتوں سے شروع ہوکر بڑے جانی نقصانات کا سبب بنتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر تنازعات زمینوں اور پانی کی وارہ بندی سے جنم لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دردناک واقعہ گاؤں پیرل سنگڑھ میں پیش آیا جہاں پانی کی وارہ بندی کے معمولی تنازع نے خونی تصادم کی صورت اختیار کرلی۔ پولیس کے مطابق سنگڑھ برادری کے ایک گروپ نے جس میں امیر بخش سنگڑھ، قاسم، عبدالکریم،حضوربخش، برکت،منظور، سخاوت، فیاض ،مشتاق و دیگر شامل تھے اپنے مخالف گروپ پر آتشیں اسلحہ سے حملہ کردیا، جس کے بعد دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ ہونے لگا۔ اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں حملہ آور کے ایک ساتھی سمیت دو افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ علاقہ معززین اور عینی شاہدین کے مطابق دونوں گروپوں میں کشیدگی کی اطلاع تھانے میں دے دی گئی تھی اورحملے سے قبل چار پولیس اہلکار وہاں پہنچ گئے تھے ، مگر جب دونوں گروپوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوا تو چاروں پولیس اہل کار بجائے متحارب فریقین کو کنٹرول کرنے کے، وہاں سے راہ فرار اختیار کرگئے۔ پولیس نے سنگڑھ برادری کے دونوں گروپوں کے خلاف دو علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کرلیے ہیں ۔

حالیہ واقعہ سےقبل اس سال اپریل کے مہینے میںہونے والےدو قبائلی تصادم میں 6افراد موت کے گھاٹ اترچکے ہیں جب کہ کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق 15اپریل کوگھوٹکی کے علاقہ ڈہرکی کے مضافات میں واقع کھینجو میں دو گروپوں کے درمیان تصادم کے دوران فائرنگ سے 3 افراد ہلاک جب کہ 2 شدید زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق مذکورہ خوں ریز تصادم اراضی کے تنازعہ کا شاخسانہ تھااور مرنے والے تینوں افراد ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ اس سے قبل 6 اپریل کو بھی گھوٹکی کے علاقہ رونتی میں قبائلی تصادم کے دوران فائرنگ سے سیلرو برادری کے 3 افراد قتل اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا عمر شر کے بیٹے دین محمد کو قتل کر دیا تھا تھا جس کے بعدشر برادری کے مسلح افراد نے سیلرو برادری پر حملہ کیاتھا۔جاں بحق ہونے والے تینوں افراد ایک دوسرے کے کزنز ہیں۔

سندھ کے مختلف اضلاع میں قبائل کے درمیان کئی عشروں سے دشمنیاں چلی آرہی ہیں۔ معمولی نوعیت کے تنازعات بڑھ کر خونی تصادم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ ان علاقوں میں قانون کی حکم رانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر متحارب علاقے میں علاقہ معززین اور سرکاری حکام پر مشتمل پنچایت کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو متحارب فریقین کو ایک میز پر بٹھا کر ان میں باہمی تصفیہ کرائیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین