• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین نے شادی کے لیے سخت شرائط رکھنا شروع کردیں

ان دنوں سعودی معاشرے میں طرح طرح کی تبدیلیوں کی ہوا چل رہی ہے۔ماضی میں جو لڑکیاں شادی کے لیے خوابوں کے شہزادے کی آمد کے لیے چشم براہ رہا کرتی تھیں اب وہ شادی کےلیے نت نئی شرائط پیش کرنے لگیں۔ایک عرب میڈیاکے مطابق بعض نکاح خوانوں کا کہنا ہے کہ کئی لڑکیاں نکاح نامے میں عجیب و غریب شرائط درج کرانے لگی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ 80 فیصد نکاح ناموں میں کوئی پیشگی شرط نہیں ہوتی مگر 20فیصد ایسے ہیں جن میں زیادہ تر شرائط لڑکیوں کی طرف سے درج کرائی جا رہی ہیں ۔ایک نکاح خواں ابراہیم العامر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسے نکاح پڑھاتے ہوئے زمانہ ہو چکا ہے مگر کبھی بھی کسی خاوند نے نکاح نامے میں کوئی شرط درج نہیں کرائی ۔ بیشترشرائط لڑکیوں کی طرف سے درج کرائی جا رہی ہیں ۔ایک لڑکی نے شرط پیش کی کہ دولہا کو تین ماہ کے اندر اندر اپنا وزن 109کلوگرام سے 80کلو گرام تک لانا پڑے گا۔ ایک اور نکاح خواں عبدالکریم العنزی نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ خاوند شرائط پیش کرنے میں بالکل ہی پیچھے ہوں تاہم شرطیں درج کرانے والے شوہروں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ نکاح خواں عبدالسلمی نے بتایا کہ نکاح پڑھاتے وقت اسے کسی نہ کسی نئی شرط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ایک لڑکی نے کہا کہ نکاح نامے میں یہ شرط تحریر کی جائے کہ وہ گیسٹ ہائوسز میں ہونے والی مخلوط پارٹیوں میںشریک نہیں ہو گی ۔ ایسی کوئی بھی تقریب جس میں لڑکے بھی ہوں وہ نہیں جائے گی۔ ایک لڑکی نے شرط پیش کی کہ خاوند کو اپنے کمپیوٹر اور موبائل کا پاسورڈ بھی بتانا ہو گا ۔

نکاح نامے میں خاوند کے موبائل کے پاس ورڈ کا علم ہونا، ضروری شرط قرار

کئی نکاح خوانوں نے بتایا کہ دلہنوں کی جانب سے کئی شرائط عام ہو گئی ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ دولہا کو گھر کا انتظام کرنا ہوگا ، دوسری شرط یہ کہ تعلیم مکمل کرنے میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی، ملازمت پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی ،گھر سے کسی بھی وقت بلا اجازت جانے کی سہولت مہیا ہو گی، سالانہ تعطیلات مخصوص سیاحتی مقامات پر گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

سعودی عرب میں کچھ عرصہ پہلے تک خواتین نکاح نامے میں من پسند شرائط تحریر کرا سکتی تھیں مثلاً یہ کہ شادی کے بعد تعلیم جاری رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی، ملازمت سے نہیں روکا جائے گا، سوتن نہیں لائی جائے گی، ملازمہ کا انتظام کرناہوگا وغیرہ، تاہم اب دلہنوں کی دیکھا دیکھی دلہوں نے بھی نکاح نامے میں شرائط پیش کرنا شروع کر دیں۔ایک سعودی وکیل احمد عیبان نے دلہوں کے حوالے سے قانونی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ’ اگر شوہر چاہے تو وہ بھی نکاح نامے میں اپنی پسند کی شرطیں ڈال سکتا ہے۔ مثلاًوہ یہ شرط لگا سکتا ہے کہ بیوی اس کی مرضی کے بغیر سفر نہیں کر سکتی۔وہ یہ شرط بھی عائد کر سکتا ہے کہ بیوی کسی بھی قسم کی ایپلیکشن استعمال نہیں کر سکے گی۔نکاح نامے میں انہی مردانہ شرائط نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ قانونی رائے پر جب ردعمل سامنے آیا تو احمدالعیبان نے یہ مشورہ پیش کیا کہ اگر بیوی شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کی شرط نکاح نامے میں شامل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے یہ اس کا حق ہے۔

جب یہ باتیں مزید بڑھیں تو ایک خاتون رکن شوریٰ ڈاکٹر اقبال درندری نے العیبان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’وکیل محترم !کیا نکاح نامے میں ایسی شرائط کے اضافے کی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے جو سعودی عرب کے قانونِ نکاح کے سراسر منافی ہوں‘ ؟رکن شوریٰ نے یہ بھی پوچھا کیا مرد حضرات نکاح نامے میں ایسی شرائط عائد کر سکتے ہیں جن سے خواتین کے حقوق پر قدغن لگائی جا رہی ہو؟’کیا مرد حضرات کو نکاح نامے میں خواتین کے ساتھ ان کے حقوق کے بارے میں سودے بازی کی اجازت دی جا سکتی ہے‘؟خاتون رکن شوریٰ نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایسی شرائط جن سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہ ہو رہا ہو ، لگائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی خاتون یہ شرط لگا رہی ہو کہ اس پر کوئی سوتن نہیں لائی جائے گی تو اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ مرد کا بنیادی حق سلب کرنے واالی شرط نہیں ہے۔خاتون رکن شوری کا کہنا تھا کہ دوسری شادی تفریح طبع کے لیے کی جاتی ہے۔اس سے پہلی بیوی کو نقصان بھی ہوتا ہے۔جہاں تک ملازمت نہ کرنے اور سفر سے محروم کرنیوالی شرائط تھوپنے کا تعلق ہے تو ایسا کرنے سے خاتون کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔رفتہ رفتہ یہ عمل انسانی اسمگلنگ کے دائرے میں آجائے گا۔ڈاکٹر اقبال درندری نے مزید کہا کہ اس قسم کی شرائط کی بنیادہی غلط ہیں۔ ان سے خواتین کے ایسے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں جن کی ضمانت سعودی قانون نے دے رکھی ہے۔اگر کسی نے نکاح نامے میں اس قسم کی شرائط لکھوا دیں تو ان پر عمل درآمد ضروری نہیں ہو گاکیونکہ یہ شرائط غیر قانونی ہیں۔

اس حوالے سے ایک وکیل محمد المری نے رائے دی کہ میرے نقطہ نظر سے یہ غیر اخلاقی شرائط ہیں۔اس قسم کی شرائط وہی شخص لگا سکتا ہے جو مکمل شریک حیات میں یقین نہ رکھتا ہو۔ اصولی بات یہ ہے کہ شوہر بیوی دونوں کو خود مختار ہونا چاہئے ، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اگر فریقین میں سے کوئی ایک دوسرے کو زیر کرنے والی شرائط عقائد کر رہا ہو تو یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔اس قسم کی شرائط شادی کو ناکام بنانے کا الارم ہے۔

خاتون وکیل خلود الغامدی کا کہنا تھا کہ خاتون بھی شوہر پر شرطیں عائد کر سکتی ہے مثلاًوہ نکاح نامے میں یہ شرطیں شامل کر سکتی ہے کہ اس کے کسی بھی پروگرام میں شوہر مداخلت کا مجاز نہیں ہو گا۔اسے سفر سے نہیں روکے گا ، ڈرائیونگ پر پابندی نہیں لگائے گا، ملازمت کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔طلاق کی صورت میں ایک لاکھ ریال یا اس سے زیادہ دینے ہوں گے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں سعودی محکمہ شماریات نے اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہر دس سعودی لڑکیوں میں ایک ایسی ہے جسے معمر کنواری کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں 8لاکھ 60 ہزار227 لڑکیاں ایسی ہیں جن کی عمریں 32 سال سے تجاوز کر گئی ہیں اور جن کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 53 ہزار675 طلاقیں ہوئیں۔ عدالتوں میں روزانہ طلاق کے حوالے سے 149 مقدمات درج ہوتے ہیں۔

تازہ ترین