• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُردو شاعری سے دِل چسپی نہ رکھنے والا بھی غالبؔ کے نام سے ضرور واقف ہے اور یہ واقفیت اس بات کی غمّاز ہے کہ عظمت کا تاج، اُردو شاعری کے بے تاج بادشاہ، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے سَر ہے۔ غالبؔ کے گوناگوں کمالات میں سے ایک کمال اُن کی تعلّی بھی ہے۔ تعلّی، اُردو شاعری کی اصطلاح میں اپنی بڑائی کے اظہار کو کہتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعرانہ تعلّی کے لیے یہاں اُن کے محض ایک شعر سے مدد لی جا رہی ہے۔ تاہم، ذہن میں رکھنا ہو گا کہ یہ تعلّی اس قدر وزنی ہے کہ اس کا بوجھ کسی دوسرے شاعر سے شاید ہی اُٹھایا جاسکے۔ یہ شعر کچھ یوں ہے کہ؎ہیں اور بھی دُنیا میں سُخن وَر بہت اچّھے…کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور۔ دوسرے مصرعے کو خواہ جتنے بھی زاویوں سے پڑھیں، آپ کو غالبؔ کے ذہنِ رسا کی داد دینی ہی پڑے گی۔ اب خیال کیجیے کہ غالبؔ جیسا شاعر جس فرد کی عظمت کا قائل ہو،اُس کا شاعری کی دُنیا میں کیا درجہ ہوگا۔غالبؔ نے سرتاج الشّعراء اور اُردو غزل کے میرِ کارواں، میر تقی میرؔ کے لیے جو کہا ہے، محض اُس کی تکرار کر لیتے ہیں۔؎ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ…کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا…غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخؔ…آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں…میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ…جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں۔سو، اب بات میرؔ کی یعنی اُردو شاعری کے میرِ کارواں کی آ گئی ہے۔

میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقلِ مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ خاندان کے کچھ افراد نے تو وہیں قیام کر لیا، جب کہ کچھ نے اگلی منزلوں کا قصد کیا۔ آگے سفر اختیار کرنے والوں میں میرؔ کے پر دادا بھی شامل تھے، جو اکبر آباد میں سکونت اختیار کر بیٹھے۔ تاہم، قسمت نے یاوری نہ کی اور موسم کی ناموافقت کا ایسا شکار ہوئے کہ شدید بیماریوں نے گھیر لیا اور بالآخر جان ہار بیٹھے۔ اُن کا ایک ہی بیٹا تھا اور یہ میرؔ کے دادا تھے، جو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ ملازمت کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے اور بعض مرتبہ تو ہمّت بھی جواب دے جاتی۔ تاہم، قدرت کو رحم آیا اور یوں آگرے میں فوج دار ی کے منصب پر فائز ہوئے۔ دادا کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا جوانی ہی میں انتقال ہو گیا، جب کہ چھوٹے بیٹے کا نام، میر محمد علی (میرؔ کے والد) اور لقب، علی متّقی بتایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اختلافی آراء بھی سامنے آتی ہیں۔ البتہ ان سے ہٹ کر یہ بات ضرور تواتر سے بیان کی جاتی ہے کہ میرؔ کے والد درویشانہ ، قلندرانہ مزاج رکھتے تھے اور کارِ دنیا سے گُریز ہی کے سبب لوگ اُنہیں ’’متّقی‘‘ کہنے لگے۔ محمد علی متّقی نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی سراج علی خان آرزوؔ کی بڑی بہن سے انجام پائی۔ ان سے حافظ محمد حسن نام کے ایک بیٹے تھے۔ یہ میرؔ کے سوتیلے بھائی تھے۔ دوسری بیوی سے تین بچّے پیدا ہوئے۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ میرؔ نے اکبر آباد (آگرے)میں 1723ءمیں جنم لیا۔ گھرانا ثروت سے دُور اور غُربت سے بہت قریب تھا۔ تب سلطنتِ مغلیہ تیزی سے زوال کی طرف گام زن تھی۔ زمانہ پُر آشوب ہو چلا تھا۔ دہلی کی صُورت کچھ یوں تھی کہ یہ شہر گویا ہندوستانی سلطنت کا مرکزی دھارا تھا۔1556ء سے1707ء تک ہندوستان پرجو مغل شہنشاہ حُکم راں رہے، اُن میں اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب عالم گیر شامل تھے۔ یوں اورنگ زیب کے بعد مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوئی۔ اورنگ زیب کے سب سے بڑے بیٹے نے اقتدار کی اندھی جنگ میں اپنے بھائیوں کو شکست دے کر حکومت پر قبضہ کر لیا اور خود کو ’’بہادر شاہ‘‘ کا نام دے ڈالا۔ یہ 1707ء تھا۔ وہ محض پانچ برس ہی اقتدار پر قابض رہ سکا۔ شورشیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ اُس کی سِکّھوں سے مسلسل لڑائیاں رہیں۔1712ءمیں بہادر شاہ کا دَور ختم ہوا۔ اُس کے بعد جہاں دار شاہ بادشاہ بنا اور محض گیارہ ماہ ہی حکومت کر سکا۔ یعنی 1713ء تک۔ گویا میرؔ نے بدترین خلفشار اور بے اُصول اقتدار کے پس منظر میں جنم لیا اور میرؔ کی پیدایش برّصغیر میں سلطنتِ مغلیہ کا زوال اور انگریزی اقتدار کا کمال تھی۔

میرؔ کے والد، میر محمد علی یادِ خدا میں محو رہنے والے انسان تھے۔ مزاج کے اعتبار سے گویا صوفی تھے۔ میرؔ کے لڑکپن کے دِنوں کی بات ہے کہ اُن کے والد کے پاس میر امان اللہ نامی نوجوان آیا کرتا، جو میر محمد علی کی صحبت اختیار کر کے ایک صالح انسان بن گیا۔ میرؔ کو امان اللہ سے اتنی اُنسیت ہوئی کہ وہ اوائلِ عُمری کا بیش تر وقت اُسی کے ساتھ بسر کرنے لگے۔ سات برس کی عُمر تھی کہ قرآن پاک کی تعلیم سے تعلیمی سفر شروع ہوا۔ امان اللہ سے، جنہیں میرؔ چچا کہا کرتے، درسِ قرآن لیا۔ میرؔ نے اپنے چچا یعنی امان اللہ کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں درویشوں سے ملنے کا بہت شوق تھا اور بسا اوقات اس شوق کی تکمیل کچھ اس صورت کرتے کہ کسی نہ کسی درویش کی چوکھٹ پر حاضر ہوتے۔ ایک روز وہ احسان اللہ نامی درویش کے در پر پہنچے۔ میرؔ بھی ساتھ تھے۔ اُس درویش کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی بھی آواز دیتا، تو جواب میں کہتا کہ’’ احسان اللہ موجود نہیں ہے۔‘‘ سو، اس مرتبہ بھی یوں ہی ہوا اور جوں ہی درویش کی طرف سے صدا آئی کہ احسان اللہ نہیں ہے، تو میرؔ کے چچا کی طرف سے برجستہ کہا گیا کہ’’ امان اللہ تو موجود ہے۔‘‘ درویش نے فوری طور پر اندر بلا لیا اور میرؔ کی طرف ایک نظر ڈال کر امان اللہ سے پوچھا کہ ’’یہ کون ہے؟‘‘ امان اللہ نے جواب دیا کہ ’’متّقی کا بیٹا ہے اور میری تربیت میں رہتا ہے۔‘‘ درویش نے کہا کہ ’’اگر تربیت صحیح رُخ پر ہوئی، تو اس کی شُہرت آسمان تک پہنچ جائے گی۔‘‘ یہ شاید اسی صحبت کا اثر تھا کہ خود میرؔ بھی فقیر مَنش اور صوفی مزاج کے حامل ٹھہرے۔ درویشوں سے عقیدت طبیعت کا شعار قرار پایا۔ رفتہ رفتہ لفظ اور حرف سے قُربت بڑھنے لگی۔ اُردو اور فارسی پڑھنے میں لُطف آنے لگا۔ چند ہی برس گزرے ہوں گے کہ میرؔ کو فارسی اور اُردو پر کمال درجہ دسترس حاصل ہو چلی۔1732-33ء کا زمانہ تھا کہ میرؔ کے والد انتقال کر گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انتقال کے وقت تین سو روپے کے مقروض بھی تھے۔ ترکے میں البتہ چند سو کتابیں ضرور تھیں، مگر اُن پر بھی بڑے بھائی نے قبضہ کر لیا۔ باپ کی تجہیز و تکفین کا عمل بھی اس طرح انجام پایا کہ ایک مُرید نے پانچ سو روپے کی رقم ادا کی۔ یہ وقت میرؔ کے لیے سخت آزمایش اور ابتلا کا تھا کہ عُمر کا محض دسواں یا گیارہواں برس تھا اور تعلیم و تربیت کی ابتدائی منازل ہی طے کرنا شروع کی تھیں۔ باپ کا انتقال ہی کچھ کم اُفتاد نہ تھی کہ سوتیلے بھائی، محمد حسن نے عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ میرؔ نے ان باتوں کا گہرا اثر لیا اور طبیعت میں زُود رنجی پیدا ہو گئی۔ سوتیلے بھائی کا نازیبا روّیہ جب حد سے تجاوز کر گیا، تو میرؔ نے اپنے چھوٹے بھائی، محمد رضی کو گھر ہی پر رہنے کا کہہ کر حصولِ روزگار کے لیے باہر نکلنے کا قصد کیا۔ بہت دوڑ دھوپ کی، مگر کوئی بات نہ بن سکی۔

یہ 1734-35ء کا زمانہ تھا کہ میرؔ نے شاہ جہاں آباد، دہلی کا رُخ کیا۔ یہاں اوّل اوّل جس سے ملاقات ہوئی، وہ نواب صمصام الدّولہ کے بھتیجے، خواجہ محمد باسط تھے۔ صمصام الدّولہ کا اصل نام، خواجہ عاصم تھا اور وہ قمر الدّین خاں آصف جاہ اوّل کے دربار سے وابستہ تھے۔ خود صمصام الدّولہ کے والد، خواجہ قاسم بھی شاہی دربار سے وابستہ رہ چُکے تھے اور وہ زمانہ تھا، فرّخ سیر بادشاہ کا، جس نے اُنہیں ’’خان دوراں بہادر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد خواجہ عاصم بھی دربار ہی سے وابستہ ہوئے اور بادشاہ کی قُربت حاصل ہونے لگی۔ جب محمد شاہ بادشاہ کا زمانہ آیا، تو خواجہ عاصم ’’امیر الامراء‘‘،’’بخشی گری‘‘ اور ’’صمصام الدّولہ‘‘ کہلائے جانے لگے۔ شاعرانہ ذوق اس حد تک بلند تھا کہ فارسی میں کلام بھی کہتے۔ محمد باسط نے اپنے چچا سے میرؔ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میر محمد علی متّقی کے صاحب زادے ہیں۔ میر متّقی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔‘‘ صمصام الدّولہ کو یہ سُن کر انتہائی رنج ہوا اور کہا کہ ’’مرحوم کے مجھ پر احسانات تھے۔ لہٰذا، مَیں میرؔ کے لیے ایک روپیا روز کا وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔‘‘ میرؔ نے کہا کہ ’’حضور اس سلسلے میں تحریری حُکم جاری فرما دیں، تاکہ کوئی اعتراض نہ کر سکے۔‘‘ صمصام الدّولہ نے کہا کہ ’’ قلم دان کا وقت نہیں ہے۔‘‘ میرؔ نے اس بات پر تبسّم کیا، تو صمصام الدّولہ نے تبسّم کی وجہ دریافت کی۔ میرؔ نے جواب میں کہا کہ ’’اس کا سبب یہ ہے کہ مَیں آپ کی بات دو وجوہ سے نہ سمجھ سکا۔ اوّل یہ کہ اگر آپ یہ فرماتے کہ قلم دان بردار اس وقت حاضر نہیں ہے، تو بات دُرست تھی۔ دوم یہ کہ آپ اگر یہ فرماتے کہ یہ دست خط کا وقت نہیں ہے، تب بھی دُرست ہوتا۔ تاہم، یہ کہنا کہ وقتِ قلم دان نیست (قلم دان کا وقت نہیں ہے) انوکھی بات ہے، کیوں کہ قلم دان تو لکڑی کا ہونے کے باعث وقت اور بے وقت سے واقف نہیں ہے۔‘‘ صمصام الدّولہ میرؔ کی اس ذہانت پر بہت خوش ہوئے۔

وظیفے کی وجہ سے کچھ ذہنی و مالی آسودگی نصیب ہوئی۔ اسی اثنا میں چار، پانچ برس گزر گئے۔1739ء آ پہنچا اور نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ گرچہ صمصام الدّولہ نے مقابلہ کیا، مگر نادر شاہ کے سامنے دیر تک ٹھہرنا مشکل تھا۔ یوں صمصام الدّولہ مارے گئے اور میرؔ کا وظیفہ بھی بند ہو گیا۔ اب ارادہ ہوا کہ واپس اکبر آباد جایا جائے۔ سو، واپسی کا سفر اختیار کیا گیا۔ تاہم، وہ اکبر آباد کہ جہاں جان پہچان کے لوگ کثیر تعداد میں آباد تھے، اب گویا اَن جان سے نظر آنے لگے۔ یہ بات میرؔ جیسے حسّاس طبع شخص کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھی۔ چناں چہ اکبر آباد میں ایک پَل بھی اطمینان حاصل نہ ہو سکا۔ سو اُسی سال دلّی کی جانب دوسرا سفر اختیار کیا۔ دلّی میں اُس زمانے کے مستند شاعر، سراج الدّین علی خان کا، جو خان آرزوؔ کے نام سے جانے جاتے تھے اور رشتے میں میرؔ کے ماموں تھے، طوطی بولتا تھا۔ وہاں اُن دنوں بادشاہ، احمد شاہ کی حکومت تھی۔ دلّی کی دُنیا اکبر آباد کے مقابلے میں بے حد وسیع تھی اور خان آرزوؔ کے دَم سے شعر و سُخن کی خُوب خُوب محفلیں بھی آراستہ ہوتیں۔ وہ شعراء میں ’’امام المتاخرین‘‘ مشہور تھے۔ علم و فضل میں کمال حاصل تھا اور زبان و بیان کے قواعد پر مہارت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ میرؔ کو یہ ساری فضا بہت بھائی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز خان آرزوؔ نے میرؔ سے کہا کہ ’’آج مرزا سوداؔ اپنا یہ مطلع بہت شان کے ساتھ پڑھ گئے، ؎چمن میں صبح جو اُس جنگ جُو کا نام لیا… صبا نے تیغ کا آبِ رواں سے کام لیا ۔‘‘ میرؔ نے اس کے جواب میں فی البدیہہ یہ مطلع پڑھا ۔؎ ہمارے آگے ترا جب کِسو نے نام لیا …دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا۔‘‘یہ سُن کر خان آرزوؔ خوشی سے کِھل اٹھے اور بے ساختہ چشمِ بددُور کہا۔ اس اثنا میں یہ بھی ہوا کہ میرؔ کے سوتیلے بھائی نے اپنے ماموں کو خط میں کچھ اس قسم کی عبارت تحریر کی کہ میرؔ کی کسی بھی عنوان سے کوئی مدد نہ کی جائے۔ کچھ تذکرہ نگاروں کے مطابق، خان آرزوؔ نے میرؔ سے بدسلوکی بھی روا رکھی، جس کا میرؔ نے اتنا اثر لیا کہ مجنونانہ کیفیت پیدا ہو گئی۔ بہر حال، خان آرزوؔ کے علاوہ یہاں میرؔ کو جعفر ؔ عظیم آبادی اور سعادتؔ علی امروہوی سے حُصولِ علم و ادب اور تہذیب برتنے کا موقع ملا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سعادتؔ علی امروہوی کی صحبت کا نتیجہ تھا کہ میرؔ نے پورے طور پر شاعری سے رشتہ جوڑا اور گویا شاعری اُن کے لیے اوڑھنا بچھونا قرار پائی۔ سعادت ؔ علی کی صحبت میں شعری ریاضت نے میرؔ کو اس قدر طاق کر دیا کہ جلد ہی گلی کُوچوں میں میرؔ کی شُہرت ہو گئی۔ سعادت امروہوی اپنے رنگ کے بے مثل شاعر تھے اور حضرت شاہ ولایت کی اولاد میں سے تھے۔1742ء میں کہ جب میرؔ کا عُنفوانِ شباب تھا اور عُمر کی اُنیسویں منزل، شاعری کی بِنا پر ہونے والی شُہرت قریہ قریہ اور شہر شہر پرواز کرنے لگی۔ یہی نہیں، بلکہ اُس وقت کے بزرگ اور نوجوان شعراء بھی میرؔ کے لہجے کو اپنانے کی کوشش کرنے لگے۔ میرؔ کی سُخن وَری، اُن کی برتری اور سروری کی داستانیں رقم کرنے لگی۔ شاہ و گدا اُن سے یک ساں توقیر سے پیش آنے لگے۔1748ء کا سال تھا کہ جب میرؔکی وابستگی رعایت خاں کے دربار سے ہوئی۔ رعایت خاں، جو عظیم اللہ خاں کے بیٹے اور اعتماد الدّولہ قمر الدّین خاں کے بہنوئی تھے، شعر و سُخن کے دل دادہ تھے اور یوں میرؔ کی بے حد تکریم کیا کرتے ۔

میرؔ سے قبل کا عہد اُردو شاعری کا ارتقائی عہد کہا جا سکتا ہے اور خود میرؔ کا عہد خود اُن کے سبب اور سوداؔ و دردؔ کے باعث بلاشبہ ’’اُردو شاعری کے عہدِ زرّیں‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ درج بالا سطور میں اٹھارویں صدی کا ذکر ہے۔ سو ،اس عنوان سے یہ بیان کرنا از حد ضروری ہے کہ یہی وہ صدی بھی ہے کہ جس میں شمالی ہند میں اُردو شاعری کو زبردست رواج حاصل ہوا اور اس کا سبب اُس دَور میں روبۂ عمل ہونے والے بہت سے لسانی اور تہذیبی عوامل تھے۔ یہی وہ دَور بھی ہے کہ جب اُردو نے غیر محسوس طور پر فارسی کی جگہ لینی شروع کی۔ میرؔ ہی کے عہد میں نابغۂ روزگار شاعر، مرزا رفیع سوداؔ بھی موجود تھے۔ وہی سوداؔ کہ جنہیں میرؔ نے ’’پورا شاعر‘‘ قرار دیا۔ اس کے علاوہ اُن کے دَور میں دردؔ، سوزؔ، قائمؔ، حاتمؔ، بقاؔ اور چند دوسرے شعراء بھی موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ ان میں معاصرانہ چشمکیں بھی رہتیں۔ اُردو ادب میں اسے ’’ادبی معرکہ آرائی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے بھی درجے متعیّن کر دیے گئے، جو ہجو ملیح، ہجو قبیح اور سبّ و شتم کے نام سے موسوم ہیں۔ یہ معاصرانہ چشمکیں اگر صحت مند مقابلے تک ہی رہتیں، تو کوئی پریشانی کی بات نہ تھی۔ مگر اکثر یوں ہوتا کہ مقابلہ شروع ہو کر مناظرہ بنتا اور مناظرہ جلد ہی مجادلہ بن جاتا۔ اُردو کی ادبی تاریخ کا ایسا ہی ایک مجادلہ وہ بھی تھا کہ جس میں اُردو میں صوفیانہ شاعری کو باقاعدہ صنف کی شکل عطا کرنے والے خواجہ میر دردؔ کے شاگرد، محشرؔ، جراتؔ کے شاگرد، مہارتؔ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ تاہم، مقتول شاعر کے عزیز و اقارب نے قاتل شاعر کو زیادہ مہلت نہ دی اور قتل کر دیا۔ میرؔ کی معاصرانہ چشمک کم و بیش سارے ہی شعراء سے رہی، جن میں بقاؔ بھی شامل تھے۔ ایک واقعہ یہ ہوا کہ بقاؔ نے شعر کہا ؎ سیلاب سے آنکھوں کے رہتے ہیں خرابے میں …ٹکڑے جو میرے دل کے بستے ہیں دوآبے میں۔ میرؔ صاحب نے اسے سُن کر یوں کلام کیا؎ وہ دِن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتی تھیں …سوکھا پڑا ہے اب تو مدّت سے یہ دو آبہ۔ بقاؔ نے جواب میں میرؔ پر گہری چوٹ کی،؎میرؔ نے گر ترا مضمون دوآبے کا لیا …اے بقاؔ تو بھی دُعا دے جو دُعا دینی ہو…یا خدا میرؔ کی آنکھوں کو دوآبہ کر دے…اور بینی کا یہ عالم ہو کہ تر بینی ہو۔ خیال رہے کہ دو آبہ ایسی زمین کو کہتے ہیں، جو دو دریاؤں کے درمیان ہو، جب کہ تربینی لُغت کی اصطلاح میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں، جہاں تین دریا ملیں۔ تاہم، آخری مصرعے میں بقاؔ نے اسے مُرادی معنوں میں باندھا ہے، جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ میرؔ کو ایک کی بہ جائے تین نظر آئیں۔

اُردو کے صاحبِ طرز ادیب، انشا پرداز اور اُردو تذکروں کی تاریخ کی بے مثل کتاب،’’آبِ حیات‘‘ کے خالق، محمد حسین آزادؔ نے میر کے بارے میں کچھ یوں تحریر کیا ہے کہ’’ غرض ہر چند کہ تخلّص اُن کا میرؔ تھا، مگر گنجفۂ سُخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پُھولوں کی مہک بنا کر اُڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘1750ء میں میرؔ نے اجمیر کا سفر اختیار کیا اور خواجہ معین الدّین اجمیری کی درگاہ پر حاضری دی۔ شُہرت اور عزّت تو ہم رکاب تھی، تاہم میرؔ کے اندر کہیں کوئی ایسا رنج و غم اور دُکھ پوشیدہ تھا کہ وہ طَرَب کے لمحات کو بھی عارضی طور پر ہی محسوس کرتے اور خوشیوں ، مسرّتوں کی کچھ ساعتیں کشید کرنے کے بعد غم پھر شخصیت پر محیط ہو جاتا۔ حد یہ کہ عید کی خوشیاں بھی اُنہیں خوش نہ رکھ پاتیں۔؎ہوئی عید ،سب نے پہنے،خوشی و طَرَب کے جامے… نہ ہوا، کہ ہم بدلتے، یہ لباسِ سوگواراں۔ تاہم، اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ وہ اپنے ارد گرد سے غافل تھے۔ سیاسی اور انتظامی شورشیں، قتل و غارت گری، اقتدار کی رسّا کشی، غرض یہ سب میرؔ کے سامنے ہوتا رہا اور اُس کا اظہار بھی اُن کے کلام میں جا بہ جا نظر آتا رہا۔ گویا معاملہ کچھ یوں تھا ؎ جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے…اُن کو اس روزگار میں دیکھا۔ 1752ء میں میرؔ نے ’’نکات الشّعراء‘‘ تحریر کی۔ اُردو شاعروں کے مختصر حالات اور انتخابِ کلام سے مزیّن یہ کتاب فارسی میں تحریر کی گئی۔1753ء میں میرؔ کی زندگی میں یہ تبدیلی آئی کہ وہ اپنے ماموں اور اتالیق، خان آرزوؔ کی سرپرستی اور ہم سائیگی سے باہر آگئے۔1755ء میں خان آرزوؔ دُنیا سے کوچ کر گئے اور اب میرؔ اُفقِ شعری پر جگمگانے والا سب سے تابندہ نام تھا۔ شُہرت یہاں تک بڑھی کہ اُس زمانے کا امیر و کبیر انسان، راجا جگل، جو بنگال کا مشہور ترین وکیل تھا اور خود بھی شعر و شاعری سے شغف رکھتا تھا، میرؔ کو اپنی حویلی لے آیا اور خاطر مدارات کرنے لگا۔ 1760-61ء میں میرؔ نے ’’فیضِ میرؔ‘‘ تحریر کی۔ فارسی زبان کی اس مختصر تصنیف کا سبب یہ تھا کہ میرؔ اپنے بیٹے، میر فیض علی کو نصیحت کے طور پر مفید اور کارآمد باتیں بتانا چاہتے تھے۔ سو، یوں ’’فیضِ میرؔ‘‘ میں پانچ حکایتیں بیان کی گئی ہیں۔ میرؔ کے دوسرے بیٹے، میر حسن عسکری تھے۔ میر کلّو کے نام سے جانے گئے۔ یہ بھی شاعر تھے اور ان کے دو تخلّص تھے۔ اوّل، عرشؔ اور دوم، زارؔ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ میرؔ کی بیٹی، شمیم بھی شاعرہ تھیں اور بیگم اُن کا تخلّص تھا۔ وہ صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں ۔

1761ء میں میرؔ نے آگرہ کا سفر اختیار کیا۔ آگرے پہنچنا تھا کہ اُن کے گرد شعراء اس طرح ہجوم کرنے لگے کہ جیسے شمع کے گرد پروانے۔اس پورے عرصے میں کتنی ہی حکومتیں تبدیل ہوئیں، خون خرابا ہوا، اور میرؔ کتنے ہی درباروں سے وابستہ رہے۔ کبھی معاشی خوش حالی، تو کبھی تنگ دستی۔ کبھی دُنیا سے اور دوستوں سے کنارہ کشی، تو کبھی دنیاوی معاملات میں دِل چسپی۔ غرض یہ کہ میرؔ کی زندگی مشاہدات، تجربات اور غم و اندوہ کا مُرقّع بنی رہی۔1771-72ء کے بعد میرؔ نے دہلی سے ہجرت کی اور لکھنٔو کا سفر اختیار کیا۔ تاہم، میرؔ سے پہلے میرؔ کی شُہرت لکھنٔو پہنچی۔ جس سرائے میں قیام تھا، وہاں مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ میرؔ کے انداز و اطوار کو وہاں تمسّخرانہ طور پر دیکھا گیا اور یہ جانے بغیر کہ یہ میر تقی میرؔ ہیں، حاضرین اُنہیں پردیسی گردانتے ہوئے طنز و مزاح کا نشانہ بناتے رہے۔ بہرحال، جب میرؔ نے کلام پڑھا، تو فی البدیہہ یوں گویا ہوئے۔؎کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو…ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے …دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب …رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے … اُس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا … ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے۔ سامعین اس کلام کی بے ساختہ تعریف پر مجبور ہو گئے اور ساتھ ہی میرؔ سے معافی کے طالب بھی کہ اُن میں سے کوئی میرؔ کو شکلاً نہیں پہچانتا تھا۔ لکھنٔو میں نواب آصف الدّولہ نے اُن کی خاصی آؤ بھگت کی ، دو سو روپیا مہینہ مقرّر کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ’’آتے جاتے رہا کیجیے۔‘‘ ایک دن نواب آصف الدّولہ کی خواہش ہوئی کہ میرؔ کا کلام سُنا جائے۔ سو درباری بھیج کر میرؔ کو بلوا لیا۔ میرؔ پہنچے، تو دیکھا کہ آصف الدّولہ حوض کے پاس موجود ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی پکڑے رنگ برنگی مچھلیوں کو تیرتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ میرؔ کو دیکھ کر خوش ہوئے اور کہا کہ کچھ سنائیے۔ میرؔ نے غزل کے چند اشعار پڑھے۔ آصف الدّولہ شعر بھی سُنتے اور اپنا مشغلہ بھی جاری رکھتے۔ چار شعر پڑھنے کے بعد میرؔ رُک گئے۔ آصف الدّولہ نے کہا کہ ’’میرؔ صاحب! رُک کیوں گئے، آگے پڑھیے۔‘‘ میرؔ نے کہا کہ ’’کیا پڑھوں، آپ کی توجّہ ہی نہیں ہے۔‘‘ آصف الدّولہ نے جواب دیا کہ ’’میرؔ صاحب! اچّھا شعر خود متوجّہ کر لے گا۔‘‘ میرؔ کو یہ انداز ناگوار گزرا اور دربار میں گویا جانا ہی ترک کر دیا۔ یہاں تک ہوا کہ آصف الدّولہ کے انتقال تک دربار نہ گئے اور اُن کے بیٹے نے بہت اصرار کے بعد کسی طرح اُن کا وظیفہ بڑھا کر شروع کروایا۔ سچّی بات تو یہ تھی کہ میرؔ کو لکھنٔو سے ذہنی قُربت نہ ہو سکی اور دلّی کی یاد رہ رہ کے ستاتی رہی۔ ؎خرابہ دلّی کا دہ چند، بہتر لکھنٔو سے تھا … وہیں مَیں کاش مَر جاتا، سراسیمہ نہ آتا یاں۔

یہ سب معاملات چلتے ہی رہے۔ تاہم، میرؔ تصنیف و تالیف سے بھی غافل نہ رہے۔ اُردو مثنوی، ’’دریائے عشق‘‘ سامنے آئی۔ مثنوی کے بعد1782-83ء میں میرؔ کی مشہور تصنیف،’’ذکرِ میرؔ‘‘ سامنے آئی۔ یہ میرؔ کی خود نوشت یا سوانح عُمری کہی جا سکتی ہے۔ فارسی میں تحریر کی گئی کتاب میں بعد کے کئی برسوں میں اضافے بھی کیے جاتے رہے۔ میرؔ نے زندگی اپنے ڈھب سے گزاری۔ طویل زمانہ پایا، اُس کی شورشیں دیکھیں اور صعوبتیں برداشت کیں۔ تاہم، اپنے تئیں جو مناسب جانا، وہ کیا۔ اُردو شاعری اور خاص طور پر اُردو غزل کو میرؔ نے ایسا مُنفرد آہنگ اور رنگ عطا کیا کہ میرؔ اور اُردو غزل لازم و ملزوم قرار پا گئے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ اُردو ادب میں کئی حیثیتوں سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ اُن کی’’مسدّسِ حالیؔ‘‘ اُن کی شناخت ہے۔ اُن کی تصنیف،’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ اُردو میں تنقید کی پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حالیؔ جدید رنگِ شاعری کے باعث بھی یاد کیے جانے کے قابل ہیں۔ یہ اُن ہی کی نگاہِ دُوربیں تھی کہ جس نے اُن سے یہ کہلوایا،؎ اب گئے حالیؔ غزل خوانی کے دن … راگنی بے وقت کی گاتے ہو کیا۔ سو، یہی حالیؔ اپنی معرکۃ الآراء تصنیف، ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں ایک دِل چسپ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک روز مولانا آزردہ ؔکے مکان پر اُن کے چند احباب، جن میں مومنؔ اور شیفتہؔ بھی شامل تھے، جمع تھے۔ میرؔ کا شعر پڑھا گیا۔ شعر کی بے انتہا تعریف ہوئی اور سب کو یہ خیال ہوا کہ اس قافیے کو ہر شخص اپنے اپنے سلیقے اور فکر کے موافق باندھ کر دکھائے۔ سب قلم، دوات اور کاغذ لے کر الگ الگ بیٹھ گئے اور غور و فکر کرنے لگے۔ اسی وقت ایک اور دوست وارد ہوئے۔ مولانا سے پوچھا کہ’’ حضرت کس فکر میں بیٹھے ہیں؟‘‘ مولانا نے کہا کہ’’ شعر کا جواب لکھ رہا ہوں۔‘‘ میرؔ کے جس شعر کے بارے میں یہ ساری گفتگو ہوئی وہ یہ ہے؎ اب کے جُنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے…دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں۔ میرؔ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کی تقلید یا پیروی کی کوشش اَن گِنت شعراء نے کی۔ میرؔ کے لہجے کو اپنانا، اُن کے انداز میں شعر کہنا، اُن کی لفظیات کو برتنا، غرض کیا کیا کچھ نہ کیا گیا، مگر میرؔ کا شیوۂ گفتار کسی کو نصیب نہ ہو سکا۔ خود میرؔ نے اپنے بارے میں بالیقین یہ بات کہی تھی کہ؎ جانے کا نہیں شور سُخن کا مِرے ہرگز… تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا۔ یہ تعلّی بھی میرؔ ہی کو زیب دیتی تھی کہ؎ سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا… مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ میر تقی میرؔ نے 1810 میں وفات پائی ، لیکن اپنے انتقال کے لگ بھگ 210برس گزرنے کے بعد بھی میرؔ شعری افُق پر چھایا نظر آتا ہے۔؎ موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے…یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر۔اشعار ایسے کہ پڑھیے اور سر دُھنیے۔؎ زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا…سَر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا۔؎عالم کی سیر میرؔ کی صحبت میں ہو گئی …طالع سے میرے ہاتھ یہ بے دست و پا لگا۔؎سمجھے تھے ہم تو میرؔ کو عاشق اُسی گھڑی …جب نام تیرا سُن کے وہ بے تاب سا ہوا۔؎لیتے ہی نام اُس کا سوتے سے چونک اُٹھے ہو …ہے خیر میرؔ صاحب ،کچھ تم نے خواب دیکھا۔؎رات ہم بھی تری محفل میں کھڑے تھے چُپکے… جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ۔؎ تھا لُطفِ زیست جن سے، وہ اب نہیں میسّر…مُدّت ہوئی کہ ہم نے جینے سے ہاتھ اُٹھایا۔

تازہ ترین