برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبہ مصنوعی ذہانت سے نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبہ کو مصنوعی ذہانت خصوصاً ’چیٹ جی پی ٹی‘ جیسے ٹولز کے ذریعے نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔
دی گارڈین کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ 24-2023ء میں 7 ہزار کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تعداد صرف برفانی تودے کی نوک کے برابر ہے کیونکہ زیادہ تر کیسز اب بھی سامنے نہیں آئے اور طلبہ کو نقل کرتے پکڑنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ نقل کا انداز بدلنے سے نقل کرنے والوں کو پکڑنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اے آئی کی آمد کے بعد طلبہ براہ راست مواد لکھنے کے بجائے معلومات نکالنے اور حوالہ جات تجویز کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور بعض طلبہ اے آئی سے تحریر لے کر اسے ’ہیومنائز‘ کرنے والے ٹولز سے اسے اس طرح بدلتے ہیں کہ یونیورسٹی کا اے آئی ڈیٹیکٹر اسے نہ پکڑ سکے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 88 فیصد طلبہ اے آئی کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ریڈنگ یونیورسٹی کے اسسمنٹ سسٹمز اے آئی کے ذریعے تیار کردہ 94 فیصد پرچوں کو پکڑ نہیں سکے۔
اس حوالے سے ریڈنگ یونیورسٹی کے ڈاکٹر پیٹر سکارف کا کہنا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی نقل کی نوعیت کو بدل رہی ہے اور اسے پکڑنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
امپیریل کالج کے ڈاکٹر تھامس لنکاسٹر نے اس بارے میں کہا ہے کہ ہمیں تعلیم میں وہ مہارتیں سکھانی ہوں گی جو اے آئی ٹیکنالوجی سے تبدیل نہیں ہو سکتیں، جیسے کہ ابلاغی صلاحیت، تخلیقی سوچ اور انسانوں سے برتاؤ۔
اس حوالے سے طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ اے آئی ٹیکنالوجی سے صرف مدد لیتے ہیں اور بعد میں لکھتے اپنے الفاظ میں ہیں۔
برطانوی حکومت کے ترجمان نے اس بارے میں کہا ہے کہ اے آئی کو تعلیم میں شامل کرنا ایک اہم موقع ہے لیکن اس میں احتیاط بھی ضروری ہے جس کے لیے حکومت اب تک 187 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکی ہے۔