• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے بم دھماکوں پر جس قدر افسوس کیا جائے ، کم ہے ۔ یورپ کی دنیاوی جنت میں جب کبھی دوزخ برپا ہوتی ہے تو ہم پاکستانیوں کے خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم سب پاکستانی اپنے بچوں کو یورپ اور امریکا بھیجنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ایسے واقعات کے بعد یہ سوچ کر دم گھٹنے لگتا ہے کہ وہاں بھی ہمارے بچوں کے لیے پرسکون زندگی گذارنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کا اثر ہم افتادگان ’’پاک سرزمین ‘‘ پر ہوتا ہے اور یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیںدہشت گردی کے خلاف نئی عالمی مہم شروع کرنے کے لیے پاکستان کے لوگوں کے جمہوری حقوق نہ چھین لیے جائیں ، جیسا کہ ماضی میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے ہر واقعہ کے ڈانڈے پاکستان سے ملائے جاتے ہیں اور پاکستان میں کچھ عناصر کی اہمیت اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ پاکستان عالمی طاقتوں کی فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے ۔منگل 22 مارچ کو برسلز میں خود کش حملے اور دھماکے ہوئے ۔یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے چار روز قبل یعنی جمعہ 18 مارچ کو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے ترکی میں ہی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ جو بم انقرہ میں پھٹا ، وہ برسلز یا کسی دوسرے یورپی شہر میں نہیں پھٹ سکتا ۔ترک صدر نے یورپ پر منافقت کا بھی الزام عائد کیا اور کہا کہ تارکین ، انسانی حقوق اور دہشت گردی کے معاملات پر یورپ کی دوہری پالیسی ہے ۔ یورپ دہشت گرد گروہوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کرکے بارودی سرنگوں پر رقص کر رہا ہے ۔ وہ اپنے سینے پر ایسا زہریلا سانپ پال رہا ہے ، جو کسی بھی وقت اسے ڈس سکتا ہے ۔ ترکی کے صدر نے یورپی ممالک کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹی وی اسکرینز پر بم پھٹتے دیکھتے ہیں تو یہ آپ کو بے معنی لگتا ہے لیکن یہ بم جب آپ کے شہروں میں پھٹنا شروع ہو جائیں گے تو پھر آپ کو احساس ہو گا کہ بم پھٹنا کیسا لگتا ہے لیکن اس وقت تک شاید بہت دیر ہو چکی ہو ۔ رجب طیب ایردوآن نے یہ بات انقرہ میں 13 اور 17 مارچ کو ہونے والے بم دھماکوں کے تناظر میں کہی ، جن کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔ انہوں نے برسلز شہر کا نام اس لیے لیا کہ اسی دن یورپی یونین اور ترکی کے درمیان تارکین وطن کے حوالے سے مذاکرات برسلز میں ہی ہو رہے تھے ۔ اسے یقیناً اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ ترک صدر کے اس خطاب کے چار دن بعد برسلز میں بم دھماکے ہو گئے ۔ترک صدر کی یہ بات تو ایک آفاقی سچائی ہے کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے ، وہ خود بھی اسی میں گرتا ہے ۔ سندھ کے عظیم شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا ایک بیت یاد آرہا ہے ۔ ترجمہ ’’ تم نے تیر کمان میں ڈال رکھا ہے ۔۔۔ میاں مجھے مت مارنا ۔۔۔ مجھ میں تو تم ہو ۔۔۔ کہیں تمہارا تیر تمہیں نہ لگے ۔ ‘‘ برسلز میں جو کچھ ہوا ، وہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن اس طرح کے واقعات پاکستان میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں ۔ برسلز کے واقعہ سے 6 دن پہلے یعنی بدھ 16 مارچ کو پشاور میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی ، جس میں 18 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 50 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے ۔ یورپ اور امریکا کے لوگوں کے لیے شاید یہ کوئی خبر بھی نہیں ہو گی ۔ عالم اسلام میں روزانہ کہیں نہ کہیں ’’ برسلز ‘‘ رونما ہوتا ہے اور امریکا اور یورپ کو ٹی وی اسکرینز پر یہ سب دیکھ کر ’’ بے معنی ‘‘ لگتا ہے ۔
رجب طیب ایردوآن آج دہشت گردی کی مخالفت کر رہے ہیں اور یورپ پر دہری پالیسی اور منافقت کا الزام لگا رہے ہیں ۔ترک صدر کی اس بات پر ہم تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور ہم ہر بات منافقت سے کرنے کے عادی ہیں ۔ طیب ایردوآن اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ امریکا اور یورپ کی پالیسیوں کی وجہ سے عالم اسلام میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا اور انہیں ترکی کا مقبول رہنما بننے کا موقع ملا ۔ یہ وہی طیب ایردوآن ہیں ، جنہوں نے دسمبر 1997 ء میں استنبول کے ایک’’ جہادی ‘‘ میئر کی حیثیت سے ایک عوامی اجتماع میں خطاب کے دوران اشتعال انگیز تقریر کی تھی اور ترکی کے معروف شاعر ضیاء گوکلپ ( Ziya Gokalp ) کی نظم میں اپنی طرف سے کچھ اشعار کا اضافہ کر دیا تھا ۔ یہ اشعار اصل نظم کا حصہ نہیں تھے ۔ ’’ مسجدیں ہماری بیرکس ہیں ۔۔۔ گنبد ہمارے خود ہیں ۔۔۔ مینار ہماری سنگینیں ہیں ۔۔۔ اور مومن ہمارے سپاہی ہیں ۔ ‘‘ اس تقریر پر طیب ایردوآن کو تشدد اور نفرت پھیلانے کے جرم میں 10 ماہ کی قید ہو گئی تھی اور ان پر کسی بھی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی تھی ۔ یہ وہی زمانہ تھا ، جب پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو چیخ رہی تھیں کہ یہاں ’’ طالبانائزیشن ‘‘ ہو رہی ہے ۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد یہ راز کھلا کہ طالبانائزیشن کیوں ہو رہی تھی اور طیب ایردوآن اس طرح کی تقریریں کیوں کر رہے تھے ۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ طیب ایردوآن کو اس وقت کرد جنگجو ہی دہشت گرد نظر آتے ہیں ۔ ان کے خیال میں یورپ کرد جنگجوؤں کی مدد کرکے سانپ پال رہا ہے حالانکہ ترکی میں دہشت گردی کی بعض کارروائیوں کی ذمہ داری کرد جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ داعش نے بھی قبول کی ہے ۔ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے خلاف روس ، شام اور دیگر ملکوں کی کارروائیوں سے بھی ترک حکومت متفق نہیں ہے ۔ اس کے باوجود طیب ایردوآن کی طرف سے یورپ کی منافقت کو بے نقاب کرنے کا بیان قابل تعریف ہے ۔ ہمارے ہاں تو اس طرح کی جرات کوئی نہیں کرتا ۔ہم طیب ایردوآن کے رویہ پر اس لیے تنقید نہیں کر سکتے کہ ہم خود منافقت کا شکار ہیں اور پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کے بارے میں ہم دیانت داری سے بات نہیں کر تے ہیں ۔ ہمیں تو بس خدشہ ہے کہ برسلز جیسے واقعات کا اثر ہم پر ہو گا ۔ یورپ اور امریکا میں پاکستانیوں کا جینامزید دوبھر ہو جائے گا ۔ بین الاقوامی ایئرپورٹس پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کو روک لیا گیا اور انہیں بلاوجہ قیدی بنا لیا گیا ، جیسے دنیا میں ساری گڑ بڑ کا ذمہ دار صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ عالمی سامراجی مفادات کی بے رحمانہ جنگوں میں ترکی تو پاکستان کی طرح فرنٹ لائن اسٹیٹ نہیں ہے ۔ ہمیں خوف ہو رہا ہے کہ برسلز جیسے واقعات اور یورپ کے دیگر شہروں میں ریڈ الرٹ کی صورت حال کے بعد پاکستان میں معاملات کو درست کرنے کے لیے اہم اور سخت فیصلوں کا وقت قریب آ رہا ہے ۔ ہم بے بس منافق ہیں کہ طیب ایردوآن کی طرح ہم کم از کم دوسروں کی منافقت کی بات بھی نہیں کر سکتے۔ ہم افتادگان پاک سرزمین ہیں ۔
تازہ ترین