ڈیٹ لائن لندن، آصف ڈار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو یاد رکھنے اور ڈیڑھ ماہ کے دوران چار پانچ مرتبہ اس کا ذکر کرنے اور اسے ’’حل‘‘ کرانے کیلئے اپنا ’’کردار‘‘ ادا کرنے کی پیش کش سے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ تشویش بھی لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں وہ کسی دن اپنے کسی ٹویٹر میں کوئی دھماکہ ہی نہ کردیں اور اس مسئلہ کو ’’حل‘‘ کرنے کے سلسلے میں اپنا کوئی فیصلہ ہی صادر نہ فرما دیں! جس طرح شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے احکامات کو بجا لانا وہاں رہنے والوں کیلئے لازم ہو جاتا ہے، اس طرح صدر ٹرمپ بھی دنیا کی واحد سپر طاقت کے سربراہ ہیں اور سارے ملک ان کے ٹوئٹس اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی طاقت سے خائف رہتے ہیں، وہ دنیا کے مسائل کو ’’حل‘‘ کرانے یا ان میں بگاڑ پیدا کرنے کیلئے ٹوئٹس کا استعمال ہی کرتے ہیں، ایران کے ساتھ تعلقات کو سدھارنے اور پھر بگاڑنے کیلئے انہوں نے ٹوئٹس کا استعمال کیا جبکہ جنوبی کوریا کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، اب انہوں نے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کو ایک دم ٹوئٹ کے ذریعے ختم کردیا اور ان کے وزیرخارجہ اور دوسرے حکام ہیں کے وہ اپنے صدر کی جلد بازی میں کی گئی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ان کی ساری انتظامیہ ان ٹوئٹس سے خائف ہی رہتی ہے، تاہم صدر ٹرمپ کچھ عرصہ سے مسئلہ کشمیر کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور وہ وزیراعظم عمران خان اور نریندر مودی کو اپنا دوست بھی تصور کرتے ہیں!امریکی صدور کے رویوں کے بارے میں جانکاری رکھنے والوں کو بھی صدر ٹرمپ کے رویئے سے آگاہی نہیں ہے، سب یہی سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں! ظاہر ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر کوئی ٹوئٹ کرنے سے پہلے کچھ ہوم ورک تو کرتے ہی ہوں گے۔ انہوں نے ہوسکتا ہے کہ دونوں وزراء اعظم کے ساتھ یہ بات ضرور کی ہو کہ مسئلہ کشمیر کا آخر حل کیا ہوسکتا ہے؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم اور ان کی لابی نے صدر ٹرمپ کے کان پوری طرح بھر دیئے ہوں اس لئے وہ اب عمران خان اور پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس مسئلہ کا ایسا کوئی حل پاکستانی عوام اور کشمیری قبول نہیں کریں گے جو بھارت کی طرف سے پیش کیا گیا ہوگا اور ہوسکتا ہے جس پر صدر ٹرمپ بھی رضا مند ہو چکے ہوں گے؟ یہ بھی ہوسکتا ہےکہ وہ دونوں ممالک کو اپنی ’’ثالثی‘‘ پر آمادہ کرلیں چونکہ آئندہ ان کے انتخابات ہو رہے ہیں، اس لئے انہوں نے امریکا کے عوام کو اپنی کارکردگی بھی دکھانی ہے، مسئلہ کشمیر کو ’’حل‘‘ کراکے وہ یہ کلیم کرسکتے ہیں کہ انہوں نے دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹال دیا، کیونکہ اس جنگ کے ذریعے ساری دنیا میں تباہی ہوسکتی تھی؟ جب کسی طاقتور ملک کو ثالثی کا اختیار دیا جائے گا تو پھر ان کے فیصلے کو ماننا بھی پڑے گا؟ وگرنہ پاکستان دنیا میں بالکل تنہا بھی ہوسکتا ہے؟ ایران اور جنوبی کوریا امریکا کے سامنے اس لئے ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کی اقتصادی حالت اچھی ہے اور عالمی سطح پر ان کے موقف کو بہت سے ممالک تسلیم کرتے ہیں! پاکستان کے اقتصادی حالات ایسے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ایک قسط رک گئی تو بات قحط پر چلی جائے گی ! عالمی حمایت کا اندازہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد پاکستان کی کوششوں سے لگایا جاسکتا ہے، خود اسلامی ممالک نے پاکستان کی دو ٹوک حمایت نہیں کی؟ چین اور ترکی کی مزاحمت کب تک جاری رہ سکتی ہے؟ صدر ٹرمپ تو ایسے انسان ہیں کہ انہوں نے طالبان کو منانے، مذاکرات پر آمادہ کرنے اور امریکا کے مطالبات منوانے کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کی ایک دن تعریف کی اور چند ہفتے بعد مذاکرات ختم کرکے پاکستان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا؟ اس لئے کشمیر کے معاملے پر صدر ٹرمپ پر اعتماد کرنا دراصل نریندر مودی پر اعتماد کرنا ہوگا؟ وہ کسی بھی صورت میں بھارت کو ناراض کرکے کشمیریوں اور پاکستان کا ساتھ نہیں دیں گے، اگر وہ مخلص ہوتے تو مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ ماہ سے کرفیو نہ لگا ہوتا؟ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ ہو رہی ہوتیں؟ ہزاروں لوگ گرفتار نہ ہوتے، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند نہ ہوتی، بچے اور بوڑھے کھانے اور دوا کیلئے ترس نہ رہے ہوتے؟ کشمیر سے باہر بیٹھے ہوئے کشمیریوں کو اپنے پیاروں کے بارے میں تشویش لاحق نہ ہوتی؟ مگر ایسا لگتا ہے کہ کسی بڑی سازش کے ذریعے کشمیریوں کو جھکانے اور پاکستان کو بھارت کا ’’من مانا حل‘‘ قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ پاکستان کے حکمرانوں، عوام اور کشمیریوں کو اس طرح کی کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔