• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

براعظم افریقا کے سب سے عظیم دریا زم بیزی پر تعمیر کردہ کریبا ڈیم دنیا کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ ہے جوگذشتہ 60سال سے زمبیا اور زمبابوے کے ملکوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کا ذریعہ بنا ہواہے لیکن اس علاقے میں آنےوالی خشک سالی کے سبب اس دریا میں آنے والے موجودہ پانی کی مقدار گذشتہ سال آنے والے پانی کے مقابلے میں ایک تہائی رہ گئی ہے۔چناں چہ زمبیا کے برقی سپلائی کے ادارہ نے برقی پیداوار میں کمی کے سبب روزانہ بلیک آئوٹ شروع کردیا گیاہے ،جس کی سبب ایک کروڑ سترہ لاکھ آبادی اندھیرے میں ڈوب گئی ہے۔ چوںکہ توانائی کے مشیررینڈیل فریچر نے اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ آب وہوا کی تبدیلی کس طرح دریائے زم بیزی سے حاصل کردہ آبی بجلی کی پیداوار کو متاثر کرسکتی ہے۔انھوں نے بتایا تھا کہ کریبا ڈیم اس علاقےکے لئے انتہائی سستی بجلی اور پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ لیکن مستقبل میں اس طرح ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

پورے کرہ ٔارض پر آبی بجلی کی سپلائی پر اعتماد مجروح ہورہا ہے ،کیوں کہ دریائوں میں بارش کے موسموں میں ہمیشہ کی طرح پانی کے بہائو کی آمد میں خلل واقع ہونے لگا ہے۔ 2015ءمیں برازیل میں خشک سالی کے ریکارڈ سال کے سبب بلیک آئوٹ کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ڈیموں سے آبی بجلی کی پیداوار میں سال بہ سال کمی واقع ہورہی ہے۔ حالاں کہ یورپ میں اسپین کی بجلی کی سپلائی کا ادارہ آئی بر ڈولا نے 2016 ءمیں ریکارڈ آبی بجلی حاصل کی تھی، جب کہ اس سے اگلے سال میں اس کی بجلی کی پیداوار گذشتہ سال کے مقابلے میں گھٹ کر57 فی صد رہ گئی تھی۔

یہ تبدیلی ان علاقوں میں انتہائی اہم اثرات کا با عث ہوگی جو اپنی توانائی کی ضروریات کے لئے ڈیموں پر انحصار کرتے ہیں۔اس وجہ سے توانائی کی فراہمی کے اداروں اور سرمایہ کاروں کو بہت احتیاط سے اس ذریعے کا جائزہ لینا ہوگا جو گذشتہ سالوں میں کاربن کے بغیر بجلی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔

چناں چہ یونیورسٹی آف وسکانسن میں’’ملواکی اسکول آف فریش واٹر سائنس ‘‘کی پروفیسر جینی کہیل کے مطابق آبی بجلی کی پیداوار کی افادیت کم ہوتی جائے گی، جس طرح پانی کی سطح کم ہوگی اسی طرح آبی بجلی گھروں کی پیداوار میں بھی کمی ہوتی جائے گی۔ مثلاً 2017 ء کاسال کیلی فورنیامیں سردی میں ریکارڈکی بارش کا سال تھا۔

سانفرانسسکو کے شمال میں واقع اوروول کے آبی بجلی گھر کو پانی سپلائی کرنے والی جھیل میں پانی کی زیادتی کے سبب ڈیم پر دبائو کے بڑھنے سے اس کا اسپلوے ناکارہ ہو گیا ہے ،جس کے نتیجے میں بہائو کی زد میں آنے والےتقریباً2 لاکھ افرادکو اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنی پڑی تھی ۔

ناروے میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنی اسٹارکرافٹ نے پچھلے عرشے میں بہت زیادہ بارش کے پانی کے دبائو سے ڈیموں کو محفوظ اورمضبوط بنانے پرخرچ کرنے والی رقم کو دو گنا کردیا ہے۔ چناں چہ اس نے 2025 ءتک آبی بجلی گھروں کے منصوبوں کی دیکھ بھال اور پانی کے ذخیروں کے ڈیموں پانی کے زیادہ دبائو کے قابل بنانے کے لیےڈیڑھ ارب کروناکی رقم خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔امریکی شہر سیاٹل کو بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی’ ’سیاٹل سٹی لائٹ‘‘ کے چیف آپریٹنگ آفیسر مائیک ہینز کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کی 90 فی صدبجلی کی پیداوارڈیموں کے ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔

دنیا کے کچھ علاقوں میں آبی ذرائع سے بجلی کے حصول کی آئندہ مصدقہ پیشگوئی چو ں کہ ناقابل بھروسہ ہوگئی ہے ،اس لیے بلوم برگ کی پیشگوئی کے مطابق عالمی طور پر آئندہ تین عشروں میں 2050 ءتک آبی بجلی کی پیداوار 16فی صد سے کم ہوکر12 فی صد ہوجائے گی۔ امریکا میں گوآبی بجلی کی پیداوار مستحکم رہی ہے۔واشنگٹن میں ہائیڈ رو پاور ایسو سی ایشن کے ترجمان لیرائے کولمین کے مطابق آبی بجلی کی پیداوار کی اہمیت مستقبل میں بھی امریکی ریاستوں کے صاف توانائی کی پیداوار کے منصوبوں کے نتائج کے حصول میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔

اس طرح کی تشویش ناک صورتحال میں ہیمبرگ جرمنی کی کمپنی اکوئیلا کیپیٹل جو9.4ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کااہتمام کرتی ہے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی آئندہ کی سرمایہ کاری میں آب وہواکی تبدیلی کو فیصلہ کن اہمیت دے گی۔ چناں چہ اب کمپنی کسی بھی نئے ڈیم کے منصوبے میں سرمایہ کاری سے پہلے کم سے کم دو آزادکمیشن کے ایسے جائزے حاصل کرے گی جن سے یہ معلوم کیا جائے گا کہ کیا آئندہ اس ڈیم کے کمانڈ کے علاقے میں بارش کے معمول میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک تو اکوئیلا اپنی آبی بجلی میں لمبے عرصہ کی سرمایہ کاری میں نہایت منفعت بخش نظر آتی ہے۔ماہرین کو یقین ہے کہ گر چہ اگلے 20سال میں کاروباری ماڈل تبدیل ہوجائے گا لیکن پھر بھی آبی بجلی گھروں میں سرمایہ کاری ایک نفع بخش کاروبا ہوگا۔

اکوئیلا آبی بجلی میں سر مایہ کاری کے نگراںٹار سوئیڈ کے مطابق اس شعبے میں سر مایہ کاری سے منافعے کے بہت سے مواقع پھر بھی موجود دہیں گے ۔مثلاً ان علاقوں میں جو آبی بجلی پر زیادہ اعتمادکرتے ہیں جیسے کہ اسکینڈ ینیویاکے ممالک ہیں جہاںپر خشک سالی کے زمانے میں توانائی کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں ۔چناں چہ ڈیموں سے پانی کے ذخیرے کی سطح کم ہو جانے کے سبب کم بجلی پیدا ہوتی ہے تو بجلی کی قیمت بڑھنے سے بجلی کی کم فروخت پر بھی منافع حاصل کیا جا تا ہے لیکن ان علاقوں میں جہاں پر اگلے کئی سالوں تک بارش نہ ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے ،اس شعبےمیں کوئی خوش کن صورت حال نظر نہیں آتی ہے ۔ افریقا کے نیم سہارائی علاقوں کے ممالک زمبیا اور زمبابوے اپنے دونوں ملکوں میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے اب دریائے زم بیزی کے اوپری علاقے میں ایک اور ڈیم کے تعمیر کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔چناں چہ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے ماہرین نے رواں ماہ جرنل الیکٹرک کار پوریشن اور چین کی پاور کنسٹرکیشن کمپنی کا انتخاب کیا ہے ،جس کی تعمیر پر 14 ارب امریکی ڈالر کی لاگت آئے گی ۔

جب کہ یہ دریا گذشتہ 50 سال میں اپنے بہائو کے حساب سے سب سے نچلی سطح پر بہہ رہا ہے ۔اگر پانی کے بہائو میں اسی طر ح کی کمی آتی رہی تو زمبیا نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال ستمبر تک موجودہ کر بیا ڈیم سے بجلی کی پیداوار کو مکمل طور پر معطل کرنا پڑے گا ۔سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ اس طر ح کی خشک سالی کے آنے جانے سے دریا سے آئندہ بجلی کی پیداوار غیر یقینی لگتی ہے۔ناروے کی کنسل ٹینسی فرم کاربن لیمیٹ میں کام کرنے والے اسپالڈ فیچر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے آب وہوا آئندہ بارش کی کمی کی نشا ند ہی کررہی ہے ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ زم بیزی خاص طور پر خطرے میں ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین