• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریریں تو کشمیر کیلئے 72سال سے ہورہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا حوالہ بھی 70سال سے دیا جارہا ہے۔

اس اثنا میں کتنے ملک آزاد ہوئے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں اضافہ ہوا۔ لیکن کشمیریوں کی نہ سنی گئی۔ کتنے تنازعات میں اقوام متحدہ کی امن فورس تعینات کی گئی۔ جہاں پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور سپاہیوں نے بہت ذمہ داری سے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ جن کی تعریف یو این او نے بھی کی ہے۔کشمیر میں بھی لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے نگراں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے صدر مقام کو کیا رپورٹیں بھیجتے ہیں۔ ہمیں خبر نہیں۔ پوری قوم چاہتی ہے کہ کشمیریوں کو اپنی رائے دینے کا موقع ملے کہ وہ کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ لیکن قوم کو یہ علم نہیں ہے کہ اقوام متحدہ اس کے لیے کیسے آمادہ ہوگی۔ اقوام متحدہ اپنے میزبان اور سب سے زیادہ چندہ دینے والے امریکہ کی مرضی کے بغیر کیا کوئی قدم اٹھاسکتی ہے۔ پاکستان اپنے سفارتی۔ سیاسی اور اخلاقی دبائو سے اب تک یو این او کو مجبور نہیں کرسکے کہ وہ اپنی ہی قرار دادوں پر عمل کرواسکے۔ کشمیریوں نے تو اپنی مزاحمت تسلسل سے جاری رکھی ہے۔ شہادتوں اور قربانیوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے۔ لیکن بھارت اپنی جمہوریت کے دعوئوں اور بڑی مارکیٹ کے نعروں کے ساتھ عالمی طاقتوں کو اپنا ہمدرد بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی تنظیموں کو وہ دہشت گرد قرار دلوانے میں بھی سرخرو ہوچکا۔ سب سے زیادہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی کامیابی بھارت نے پاکستان پر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کے الزام سے ہی حاصل کی ہے۔ حالانکہ ایسی تنظیموں کا سب سے زیادہ نشانہ پاکستان ہی بنا ہے۔ ہمارے اعلیٰ فوجی افسر اور سپاہی ان دہشت گردوں کا ہدف بنے۔ ہمارے صدر۔ وزیر اعظم۔ وزراء۔ سیاسی لیڈر ان شدت پسندوں کی فہرست میں شامل رہے۔

لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان بحیثیت ایک مملکت اور 1979کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی اور فوجی حکومتیں پاکستان پر ان الزامات کا واضح جواب کیوں نہیں دے سکیں۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں نے ملک میں سرمایہ کاری روک دی۔ کئی بین الاقوامی فضائی کمپنیاں۔دوا ساز کارخانے پاکستان سے چلے گئے۔ حکومتوں کی مجبوریاں اپنی جگہ۔ ان کے روڈ میپ قطعی نہیں تھے۔ان کی ترجیحات کا تعین درست نہیں تھا۔ لیکن ہماری اپوزیشن کا اس سلسلے میں کیا کردار رہا ہے۔ جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کی حیثیت ایک متبادل کی ہوتی ہے۔ متبادل کو موجودہ کی نسبت ہمیشہ بہتر سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے نعم البدل بھی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اپوزیشن کا کیا کردار رہا ہے۔ اس پر مناسب تو یہ ہوگا کہ کوئی یونیورسٹی یا تحقیقی ادارہ باقاعدہ تحقیق کرے۔ اور اس کی ریٹنگ بھی کی جائے۔ اس کے لیے کوئی معیار بھی مقرر کیے جائیں۔ اپوزیشن کی دوڑ دھوپ صرف جلسے جلوسوں۔ دھرنوں۔ اسمبلیوں سے واک آئوٹ اور بائیکاٹ پر مشتمل رہی ہے۔ یعنی صرف ردّ عمل اور منفی کردار۔ اکیسویں صدی میں اپوزیشن یا متبادل حکومت کو تو پوری مستعدی اور تندہی سے حکومت کے اقدامات کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہئے۔ قوم کو اوردنیا کو یہ بتانا چاہئے کہ اس وقت پاکستان کے معاشی اشاریے کیا ہونے چاہئے تھے اور کیا ہیں۔ یہ ترجیحات کیوں درست نہیں ہیں۔ ایک متبادل وزیر اعظم اور دوسرے اہم محکموں کے متبادل وزراء بھی ہونے چاہئیں۔ جو معاشی پالیسیوں کا حقیقت پسندانہ اور غیر جذباتی تجزیہ کرکے قوم کو حقائق سے آگاہ کریں۔ لیکن وہی صدر مملکت کی تقریر کے دوران غل غپاڑہ۔ تقریر کی کاپیاں پھاڑنا۔ بجٹ اجلاس میں بھی یہی کرنا۔ بجٹ تو پاس بھی ہوجاتا ہے اور پورے ملک میں اس کے مطابق کام بھی ہوتا ہے۔

اس وقت کشمیر کے مسئلے میں تو اپوزیشن کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی ہے۔ انہیں یا تو حکومتِ وقت کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے یا الگ سے کوئی لائحہ عمل بنائیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری بھائیوں کی جدو جہد کو منزل سے ہمکنار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں کیا سیاسی سفارتی اور مالی راستے اختیار کیے جائیں۔ جن کی بدولت کشمیریوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچ سکے۔ اپنے ملک میں تو ہم بڑے بڑے جلسے کرسکتے ہیں۔ ریلیاں نکال سکتے ہیں۔ لیکن اصل کارگر طریقہ تو یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے ارکان۔ برطانیہ اور دوسرے ممالک کے ارکان پارلیمنٹ۔ چین روس کے سرکردہ حکومتی ارکان کو قائل کیا جائے۔ اس کے لیے جو طریقے بھی ہوسکتے ہیں اختیار کیے جائیں۔ بھارت میں حالات نے ترقی کا رُخ اس وقت اختیار کیا جب 90ء کی دہائی میں امریکہ میں موجود بھارتی نژاد امریکیوں جنہیں بھارت والے این آر آئی( نان ریذیڈنٹ انڈین) کہتے ہیں۔ انہوں نے امریکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور امریکی فیصلہ سازوں کو قائل کیا کہ سرد جنگ میں روس کا ساتھ دینے والا بھارت دراصل امریکہ کا دوست ہے۔ وہاں کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔ وہاں جمہوریت ہے۔ اور ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی مارکیٹ ہے۔ کیا یہی کردار ہمارے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو نہیں ادا کرنا چاہئے۔ اب تو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں بہت کم ہوگئی ہیں۔ اکثر تنظیمیں کالعدم ہوگئی ہیں۔ اب حکومتیں الیکشن سے ہی تبدیل ہوتی ہیں۔ سمندر پار مقیم پاکستانیوں اور ملک میں قائم یونیورسٹیوں کو آگے آنا ہوگا۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک معتبر مقام یہ دونوں مل کر دلواسکتے ہیں۔بین الاقوامی ماہرین۔ تجزیہ کار۔ سفارت کار۔ جلسوں جلوسوں کو نہیں بلکہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہیںکہ ایک ملک کے پاس زر مبادلہ کے کتنے ذخائر ہیں۔ برآمدات کتنی ہیں، شرح نمو۔ فی کس آمدنی کیا ہے۔ سیاحت سے کتنی آمدنی ہے۔ زرعی پیداوار فی ایکڑ کیا ہے۔ بد عنوانی میں کس نمبر پر ہے۔ شرح خواندگی کیا ہے۔ کتنی غیر ملکی ایئر لائنیں اس ملک کے فضائی اڈوں پر اترتی ہیں۔ ان عالمی طاقتوں کا معیار یہ نہیں ہے کہ مظفر آباد کے جلسے میں کتنے لاکھ آئے۔ کتنے نئے قومی ترانے لکھے گئے۔ کتنے گھنٹے ٹریفک روکا گیا۔ ہمیں اپنے روڈ میپ بدلنے ہوں گے۔ تب ہی پہلے پاکستان، پاکستان بنے گا اور پھر کشمیربنے گا پاکستان۔

تازہ ترین