• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدشہ ہے کہیں جوڈیشل انجینئرنگ شروع نہ ہوجائے، حامد خان

حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سپریم کورٹ بار کے پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان نے کہاہے کہ آزادی اظہار پر قدغن کا سپریم کورٹ نوٹس لے‘ جوڈیشری کی کارکردگی مایوس کن ہے‘ خفیہ ہاتھوں کا انضباطی کارروائیوں میں کردار بڑھ گیا ‘ جوڈیشری کی آزادی و خود مختاری کیلئے ہر صورتحال الارمنگ ہے، خدشہ ہے کہ کہیں جوڈیشل انجینئرنگ شروع نہ ہو جائے، اچھی شہرت کے حامل ججز کو دباؤ پر نکالنا افسوسناک ہے ، ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری کی شکایات سامنے آرہیں ہیں ، سپریم کورٹ کو زیادہ آواز بلند کرنا ہوگی، ضیاء دور کے بعد بڑی سینسر شپ دیکھنے میں آئی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ شب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی منیجنگ کمیٹی کی رکن پروین چاچڑ‘ سندھ بار کونسل کے رکن فضل قادر میمن اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس (ر) نورالحق قریشی کی جانب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کےلئے حامد خان گروپ کے امیدواروں کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں سندھ بار کونسل کے ارکان سچل اعوان‘ شیر محمدوسان ‘ رضیہ علی زمان پاٹولی‘سابق ججز اشرف لغاری‘ شیر محمدبلوچ‘ حیدرآباد ہائی کورٹ بار کے جنرل سیکرٹری ممتاز عالم لغاری‘ سینئر وکلا جھمٹ مل‘ اسلم بھٹی‘ تحسین قریشی ‘ عبدالحکیم بجارانی‘ کراچی بار کے صدر نعیم قریشی‘ حیدرامام‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدارتی امیدوار شعیب شاہین‘ جنرل سیکرٹری کے امیدوار شمیم الرحمٰن سمیت بڑی تعداد میں سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے وکلا نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ پروفیشنل گروپ نے صاف ستھرے اور اچھے کردار کے حامل امیدواروں کو پیش کیاہے کہ وکلا کے مسائل حل ہوسکیں ‘ ہاؤسنگ اسکیم جلد مکمل کی جاسکے اور بینچ اور بار کے تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشری کی کارکردگی مایوس کن ہے ‘ ججز کی تقرری کےلئے پارلیمانی کمیٹی کو غیرموثر کردیا گیا ہے ۔جوڈیشل کمیٹی کمیٹی میں ججز کی تعداد 7ہے جبکہ اس میں ہائی کورٹ کے دو ججز اس کے علاوہ ہیں جبکہ وکلا کے صرف دو نمائندے‘ وزیر قانون اور سیکریٹری قانون اس کے ممبران ہیں‘سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا اختیار ان کے پاس ہے ‘ سرکاری نمائندے کبھی چیف جسٹس کی مخالفت میں نہیں جاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی میں اقرباپروری اورمن پسند افراد کی تقرری کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ سندھ اورپنجاب میں بھی ججز کی تقرری پر تحفظات کا اظہار کیاجارہاہے ‘نان پریکٹنگ لوگوں کو ججز لگایا جارہاہے ایسے افراد سسٹم کونقصان پہنچائیں گے اس کے لئے سپریم کورٹ کو زیادہ آواز بلند کرنی اور اسکروٹنی کے لئے کوشش کرناہوگی‘بار ٹھیک کردار ادا کرے تو غلط تقرریوں کو روک سکتے ہیں۔ ججز کے کیسز کے حوالے سے بھی شکایات ہیں اچھی شہرت کے حامل صاف ستھرے ججز پر مشکل وقت آیا ہواہے اور جن کے خلاف شکایات ہیں وہ کلین چٹ لیکر چلے جاتے ہیں خفیہ ہاتھوں کا ججز کی تقرریوں اورتبادلوں اور انضباطی کارروائیوں میں کردار بڑھ گیاہے ۔انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ افسوسناک داستان ہے ۔حامد خان نے کہا کہ جوڈیشری کی آزادی و خودمختیاری کے لئے یہ صورتحال الارمنگ ہے خدشہ ہے کہ کہیں جوڈیشل انجینئرنگ شروع نہ ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا کام کرنے دیں اور ادارے اپنا کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے پر بہت بڑا قدغن لگا دیا گیاہے اب پیمرا کی اجازت کے بغیر کوئی پروگرام آن ایئر نہیں ہوسکتا ۔ضیاءدور کے بعد پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر سینسر شپ دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے تحریک چل رہی ہے ‘اخبارات میں ہماری تحریک اور خبروں کا بلیک آؤٹ ہے جبکہ چند مفاد پرست کنونشن کرتے ہیں توان کی بڑی بڑی خبریں لگوائی جاتی ہیں صحیح نمائندوں اورحقیقی احتجاج کرنے والوں کی کوریج بھی نہیں کی جاتی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ آزادی اظہار پر قدغن کے حوالے سے آرڈر دے ۔قبل ازیں تقریب کے میزبان جسٹس (ر) نورالحق ریشی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اورملک بھرسے آنے ولے سپریم کورٹ بار کے نمائندوں کو خوش آمدید کہا ۔تقریب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی منیجنگ کمیٹی کی رکن پروین چاچڑ ‘ سندھ بارکونسل کے رکن فضل قادر میمن‘ کراچی بار کے صدر نعیم قریشی‘ سپریم کورٹ بار کے صدارتی امیدوار شعیب شاہین‘ جنرل سیکریٹری کے امیدوار شمیم الرحمن نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر معزز مہمانوں کو سندھی ٹوپی اور اجرک کے تحائف بھی پیش کئے گئے۔
تازہ ترین